ارضِ جنت

تحریر : بابر امین ابر
حضرت اقبالؒ کے مشہورِ زمانہ شعر
کہتے ہیں یاران جسے جنت، وہ مکان ہم کاہلوں کا ہے
کا یہ ایسا مصرع اولیٰ ہے کہ جب بھی یہ پڑھا جاتا ہے۔ دماغ کے پردوں پر ایک خوبصورت اور دل بہار ارضِ جنت کو متصور کر دیتی ہے۔ اس ارضِ جنت کو کشمیر کہا جاتا ہے۔ یہ ارضِ جنت جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان ، بھارت اور ایشیائی ملک چین کے ایک اہم سنگم پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 85806مربع میل (222236مربع کلومیٹر) ہے۔ یہ برف پوش پہاڑوں اور وادیوں کا حامل سلسلہ ہے۔ اس کی سرحدیں پاکستان کے صوبوں پنجاب، خیبرپختونخوا، مقبوضہ جموں و کشمیر اور چین کے ساتھ متصل ہیں۔
برصغیر کے 1947ء میں دو لخت ہوتے ہی ریاستی حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے اس ارضِ جنت پر سازش کا آلہ کار بنتے ہوئے آفات کے دروازے کھول دئیے۔ اس خطے کو لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس ارضِ جنت کے افراد آزادی کے لیے ترسا دئیے گئے۔
آزادی ایک ایسی راحت انگیز اور فرحتِ ربا نعمت ہے، جس کی قدر و قیمت وہی بتا سکتا ہے، جو ظلم و جبر کے پنجروں میں پابندِ سلاسل کر قید کیا گیا ہو۔ یا کسی کے ہاتھ، پاں توڑنے کے بعد، پابندِ سلاسل کرکے، تہہ در تہہ پنجرے کا قیدی بنا دیا جائے۔
بالکل ایسا ہی ناروا اور انسانی بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑاتا سلوک، بھارت نے 05اگست 2019ء کو آئین کے آرٹیکل 370 اور 35Aکو منسوخ کر کے پیش کیا۔ 370کی منسوخی کے نتیجے میں کشمیر کے مستقل باشندوں کے خصوصی حقوق اور مراعات کا خاتمہ ہو گیا۔ اور بھارت کے دیگر حصوں کے شہریوں کو بھی وہاں جائیداد خریدنے اور دیگر قانونی حقوق حاصل ہو گئے۔
آرٹیکل 35Aکشمیر کے باشندوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کی مدد سے ان کی جائیداد کے حقوق، ملازمتوں اور دیگر فوائد کی حفاظت کی جاتی تھی اس نے کشمیر کی علیحدہ شناخت اور حیثیت برقرار رکھی تھی۔ اسے منسوخ کرتے ہی مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہو گیا۔ اور بھارتی آئین کے تمام قوانین لاگو ہو گئے۔ یعنی آزادی کے جڑ پکڑتے شجر کو جڑوں سے نکال پھینکا۔
جس کے نتیجے میں آزادی کے پروانوں نے، آزادی کے حصول کے لیے پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود بھی اپنی جدوجہد میں ہنگامہ آرا اضافہ کر دیا ہے۔ اور چھہتر سالوں سے مسلسل جاری جدوجہد میں مصروف آزادی کے متوالے پنچھی قفس کی دیواروں سے مسلسل سر ٹکرا، ٹکرا کر جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں۔ لیکن جدوجہد سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ 05 اگست 2019ء کے اقدامِ سیاہ کے نتیجے میں غاصب بھارتی درندے پاکیزہ مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتوں سے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ لاتعداد بچوں اور جوانوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کر چکے ہیں۔ جن کی آج تک خبر نہ ہو سکی۔ آزادی کے متوالے مسلسل جانی۔ نچھاور کر رہے ہیں، لیکن ان غاصب درندوں کے جھکنے سے انکاری ہیں۔
اس امرِ قبیح پر امن کے عالمی نمائندے اور عالمی ممالک کے سربراہ آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ معصوم بچوں پر یہ غاصب درندے بنفسِ ذلیل دہشت گردی انجام دے رہے ہیں۔
خونخوار ہولی کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل پورے دھڑلے سے کھیلا جا رہا ہے۔ یاران کی جنت اب بے اصولیوں اور ناانصافیوں کا جہنم کدہ بن چکی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی آفت ہو گی جو آسمان سے اتری ہو اور اس نے کسی کشمیری کا گھر نہ دیکھا ہو۔
رواں سال بھی پاکستانی اور کشمیری عوام نے بھارتی یوم جمہوریت کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ 05فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر پورے جوش و جذبے اور عقیدت سے منایا گیا۔ عالمی رہنمائوں اور اداروں کی توجہ کشمیریوں پر ٹوٹنے والے مظالم کی جانب مبذول کرائی گئی۔ پاکستان، کشمیریوں کو حق استصوابِ رائے دلانے کے لیے اقوامِ متحدہ پر بھی زور دیتا ہے۔ اور کشمیری عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔ اب یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنی شہ رگ دبوچنے والے غاصبین کے ہاتھوں کو توڑ کر رکھ دے۔ عملی اقدام کی بدولت کشمیر اور پاکستان کو یکجا کرنے کے کوششیں تیز کر دے۔
اور ’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو عملی تعبیر سے موسوم کرے۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب کشمیر، پاکستان بن کر رہے گا۔ ان شاء اللّٰہٰ!
اللّٰہ پاک کشمیری عوام کو آزادی جیسی نعمتِ بے پایاں عطا فرمائے، آمین ثم آمین!۔