نصف شعبان کی رات۔۔۔۔ رحمت، برکت اور مغفرت کی گھڑیاں

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
شعبان کی پندرہویں شب کو’’شب برأت‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’شب کا معنی ’’رات‘‘ہے اور ’’برأت‘‘ کا معنی ’’نجات پانا‘‘اور ’’بَری ہوجانا‘‘ ۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ بے شمار گناہ گاروں کو جہنم سے نجات اور آزادی عطا فرماتا ہے ، اس لیے اس رات کو’’شبِ برأت‘‘ کہا جاتا ہے۔اس عظیم الشان رات کو ’’لیل البرأت‘‘(نجات والی رات) ’’لیل الرحم‘‘(رحمت والی رات) ’’لیل المبارک‘‘ (برکتوں والی رات )اور ’’لیل الصک‘‘(نجات کا پروانہ ملنے والی رات) بھی کہا جاتا ہے۔
یہ لیل البرأت خصوصیت کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے والی رات ہے، اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی کا پروانہ حاصل کرنے والی رات ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے والی رات ہے، اس کی حمد و ثناء ، اس کی عبادت، اس کی بارگاہ میں سر بسجود رہنے والی رات ہے۔ اس رات میں اللہ رب العزت کثیر تعداد میں اپنے گناہگار بندوں کی بخشش و مغفرت فرماتا ہے۔ ان پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس شب کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ معلم امت حضور سید الکونینؐ بھی اپنے رب کاشکر ادا کرنے کے لیے اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نصف شعبان کی شب نبیؐ میرے بستر سے نکل گئے۔۔۔۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ شاید آپؐ اپنی دوسری ازواج کے پاس چلے گئے ہیں، میں آپؐ کو گھر میں ڈھونڈ رہی تھی کہ میرا پیر آپؐ کے پیروں سے ٹکرایا، اس وقت آپؐ سجدہ
ریز تھے، اس وقت آپؐ جو دعا پڑھ رہے تھے، اسے میں نے یاد رکھا۔ وہ دعا یہ تھی: میرا جسم اور ذہن تجھے سجدہ کر رہا ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لاچکا ہے، میں تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے بڑے بڑے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ، تو مجھے بخش دے ، بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشے گا، میں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیرے غضب سے تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری ناراضی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری ایسی حمد وثناء نہیں کر سکا جیسی تو خود اپنی حمد و ثناء کرتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بتایا کہ رسولؐ اللہ کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے، حتیٰ کہ صبح ہوگئی اور آپؐ کے مبارک پائوں سوج گئے تھے۔ میں آپؐ کے پیر دبا رہی تھی اور میں نے کہا: آپؐ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، آپؐ نے اپنے آپ کو بہت تھکا یا ہے، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اگلے اور پچھلے ذنب معاف کر دئیے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ اے عائشہ! تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں، کیا تم جانتی ہو کہ اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا یارسولؐ اللہ ! اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس رات میں اس سال اولاد آدم سے پیدا ہونے والے کا نام لکھ لیا جاتا ہے۔ اور اس رات میں لوگوں کے اعمال اوپر لے
جائے جاتے ہیں اور اس سال ان کا رزق نازل کیا جاتا ہے۔ ( الدر المنثور)
یہ عظیم البرکت اور مغفرت والی شب گنہگار بندوں کے لیے اپنے رب سے بخشش کا پروانہ حاصل کرنے والی ہے۔ اپنی پیشانیوں کو اس کی بارگاہ میں بچھا کر آنسو بہاتے ہوئے رب ذوالجلال کو راضی کرنے کی رات ہے۔ یہ ایسی شب ہے جس میں اللہ رب العزت کے حکم سے فرشتے مختلف آسمانوں سے رکوع و سجود کرنے والوں ، دعا مانگنے والوں، اللہ جل جلالہ کے ذکر میں مشغول رہنے والوں، خوف خدا سے ڈرنے والوں اور پوری رات عبادت کرنے والوں کو بخشش کے پروانے کی خوشخبری سناتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:شعبان کی پندرہویں رات کو حضرت
جبرا ئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا: اے محمدؐ آسمان کی طرف اپنا سر اقدس اٹھائیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ کون سی رات ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا : یہ وہ رات ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ رحمت کے دروازوں میں تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور ہر اس شخص کو بخش دیتا ہے جو مشرک نہ ہو۔ البتہ بقیہ گناہ گاروں کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک وہ اپنے گناہوں سے سچی توبہ نہ کریں۔ رات کے چوتھائی حصہ میں حضورؐ نے اپنا سر انور اٹھا کر دیکھا تو جنت کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور پہلے دروازے پر ایک فرشتہ ندا دے رہا تھا کہ اس رات کو رکوع کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ دوسرے دروازے پر موجود فرشتہ کہہ رہا تھا کہ آج سجدہ کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تیسرے دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا کہ اس رات دعا مانگنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ چوتھے دروازے والے فرشتے کی ندا تھی کہ اس رات ذکر خدا وندی کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ پانچویں دروازے پر فرشتے کی پکار تھی کہ اس رات خوف خدا سے رونے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ چھٹے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا تھا کہ اس رات تمام (عبادت گزار) مسلمانوں کے لیے خوشخبری ہے۔ ساتویں آسمان کا فرشتہ پکار رہا تھا: ہے کوئی سائل جس کو سوال کے مطابق عطا کیا جائے۔ ایک فرشتہ کہہ رہا تھا: ہے کوئی بخشش کا طلبگار جسے بخش دیا جائے۔ حضور نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ میں نے جبرائیلٌ سے پوچھا کہ یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے تو حضرت جبرائیلٌ نے فرمایا : یہ دروازے رات کے شروع ہونے سے طلوع فجر تک کھلے رہیں گے۔ اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے۔ ( ملخصا ۔۔۔غنی الطالبین)
نصف شعبان کی شب میں اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے اور بخشش طلب کرنے والوں ، نجات مانگنے والوں، رزق طلب کرنے والوں، مصیبت سے عافیت طلب کرنے والوں کو پکارتا ہے کہ وہ اللہ سے مانگے اور اللہ انہیں عطا فرمائے۔ یہ سلسلہ صرف چند لمحات یا چند منٹ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری رات رہتا ہے یہاں تک کہ صبح فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ رب العزت اس رات میں غروب شمس سے آسمان دنیا کی طرف ( اپنی شان کے مطابق) نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے: سنو! کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے تو میں اس کو بخش دوں ، سنو! کوئی رزق طلب کرنے والا ہے تو میں اسے رزق دوں ، سنو! کوئی مصیبت زدہ ہے تو میں اس کو عافیت میں رکھوں ، سنو ! کوئی ، سنو! کوئی ( وہ اسی طرح فرماتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ (ابن ماجہ: ۱۳۸۸)
اس رات کی خصوصی فضیلت کے متعلق شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا نزول تو ہر رات کے آخری حصے میں ہوتا ہی لیکن پندرہویں شعبان کی شب میں اللہ تعالیٰ کا نزول رات کے آخری حصے میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ شام ہوتے ہی مغرب کے وقت سے صبح فجر تک آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے۔ اسی وجہ سے پندرہویں شعبان کی شب کی یہ فضیلت و برتری ہے۔(ما ثبت بالسن)