امن لانا ہے تو اتحاد قائم کرنا ہو گا

تحریر : خالد محمود
ملک میں دہشتگردی کے واقعات جاری ہیں، گزشتہ دنوں قلات میں دہشتگردوں کے حملے میں18اہلکار شہید ہوئے، جبکہ فورسز نے 23 دہشتگردوں کو ہلاک کیا، اس سے قبل 28جنوری کو قلعہ عبداللہ میں2جوان شہید ہوئے اور جوابی کارروائی میں 5دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگرد ی کے بڑھتے واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں، لیکن حکومت کو پیکا ایکٹ اور عدلیہ کو تابع کر نے کے اقدامات سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے۔
دہشتگردی کے واقعات میں قابل تشویش ہیں، اس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم متحد اور پرعزم ہے، فورسز بھی بے پناہ قربانیاں دے کر دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پر عزم ہیں، قوم فورسز اور سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے پر اُمید ہے کہ ان بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں آج نہیں تو کل دہشتگردی کا مکمل سد باب کر دیا جائے گا، آرمی چیف بھی بار بار اپنا
عزم دہرائے جارہے ہیںکہ ہم مادر وطن اور عوام کے دفاع کے لئے دہشتگردوں کا سراغ لگا کر انہیں انجام تک ضرور پہنچائیں گے، جبکہ حکومت ماسوائے اظہار افسوس اور مذمت کے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے، حکومت کا کام ہے کہ دہشتگردی کے سد باب میں سیاسی خلا ء کو پر کرے ، وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کرے، اُن کے مسائل کا تدارک کرے ، مگر حکومت کے تر جمان اور وزراء خیبر بختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں آکر محروم زدہ لو گوں کو گلے لگانی کے بجائے پنجاب کے پر امن علاقوں میں ہی گلے میں ہار ڈال کر اپنی جھوٹی کار گزاریوں کا ڈھول بجاتے رہتے ہیں۔ اس طرح سے دہشتگردی کا سارا بو جھ فورسز پر ڈال کر تو کبھی دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکے گا، پاک فوج کے جوان کب تک دہشتگردی کے سد باب کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے
رہیں گے اور اہل سیاست کی نا اہلیوں کا بو جھ بھی اُٹھاتے رہیں گے ، یہ اہل سیاست کی نا اہلیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ دہشتگردی کا ناسور بار بار پھوٹ رہا ہے، اس میں جہاں اندرونی کوتاہیاں ہیں، وہیں بیرونی قوتیں بھی اثر انداز ہو رہی ہیں، جو پاکستان میں ترقی و خوشحالی کے ساتھ امن قائم ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ بلوچستان میں زیر تعمیر بین الاقوامی معاشی اور تجارتی منصوبے امریکہ و بھارت کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں، بھارت کھلے عام افغان حکومت کی ناک تلے پاکستان میں در اندازی کر رہا ہے اور افغان حکومت خا موش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس صورتحال میں ملک کو سرمایہ کاری کی ایک ابھرتی ہوئی منزل کے طور پر پیش کرنا اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پُرکشش ماحول بنانا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے، ملک میں پائیدار امن کے قیام، دہشتگردی کے خاتمے اور معاشی استحکام کی کوششوں کو کارآمد بنانے کیلئے ساری قومی قیادت کا اندرونی طور پر متحد ہونا بے حد ضروری ہے، مگر آج جب ایک بار پھر دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے تو قومی سیاسی قیادت اختلافات اور باہمی انتشار کا شکار ہے اور اس انتشار کے خاتمے کے بجائے اس کو مزید ہوا دی جارہی ہے، ملک کی بقاء کے بارے سو چنے کے بجائے حصول اقتدار میں ایک دوسرے کو راستے سے ہٹایا جارہا ہے، دیوار سے لگایا جارہا ہے ، اظہار رائے کو دبایا جارہا ہے اور ایک دوسری کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے، اگر دہشتگردی پر قابو پانا ہے اور امن لانا ہے تو ہمیں اتحاد قائم کرنا ہو گا اور یکسو ہو کر دہشتگردی اور دہشتگردوں کا سد باب کر نا ہو گا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک جامع حکمت عملی ترتیب دیں اور کوئی ایسا مشترکہ ایکشن پلان بنائیں جو کہ عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مذاکرات اور سماجی و اقتصادی ترقی پر کام کرے، بلوچستان کے عوام کے جائز مطالبات کو سننا اور ان کے مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کے ساتھ بلوچستان کے عوام کو باور کرانا ضروری ہے کہ اس خطے میں غیر ملکی مداخلت اور دہشت گرد گروہوں کی بیرونی حمایت کی جارہی ہے، اس کے خلاف ہر سطح پر موثر اقدامات بھی ہورہے ہیں، لیکن اس میں ان کا تعاون بھی در کار ہے۔ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر ملکر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ ایکشن پلان پر عمل پیرا ہوں۔