Column

ویلنٹائن ڈے غیر اسلامی رسم اور حیاء کی فضلیت

تحریر : میاں محمد توقیر حفیظ
ویلنٹائن ڈے تعارف۔14فروری کا دن ہمارے اکثر منچلے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یوم محبت کے نام سے مناتے ہیں جو محض فحاشی اور عریانی پر مشتمل ہوتا ہے دراصل اس دن کی حقیقت کچھ اور ہے ویلنٹائن نامی ایک عیسائی پادری شخص ہے جو جیل میں قید تھا جیلر کی کمسن بیٹی کے ساتھ عشق کا کھیل رچایا جس کی پاداش میں اسے14 فروری کو پھانسی دے دی گئی جو لوگ ویلنٹائن کے اس مذموم، شرمناک کام کو جائز سمجھتے ہیں وہی ہر سال 14فروری کو اس کی یاد میں ویلنٹائن ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے ایک شیطانی، کافرانہ غیر اسلامی تہوار ہے جس میں اخلاقی قدروں کا نہ صرف جنازہ نکالا جاتا ہے بلکہ اکثر اسلام سے کوسوں دور ہمارے ماڈرن ازم کے حامل نوجوان اس دن کو عشق معشوقی کے نام پر کالجز، یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو پھول دیکر بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شریعت اور اسلامی معاشروں میں اس قسم کے غیر اسلامی، کافرانہ تہواروں کی قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
اسلام پو ری ملت اسلامیہ کے لئے بہترین نظام حیات ہے اور اسی پر عمل پیرا ہوکر ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی کی کنجیوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات، سیرت الرسول کفر و شرک، لغو خرافات سے بچتے ہوئے جمعی انسانیت کو اپنے وجود پر لاگو کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔ افسوس ہم ایک اللہ اور اُس کے رسولؐ اللہ پر توکل، یقین کامل، بھروسہ کرنے کی بجائے شیطانی کلچروں کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ نوجوان طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی تعلیمات سے دور ہے اُس کی بنیادی وجہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں غیر مخلوط، مغربی نظام تعلیم ہے۔ بحیثیت اُمت محمدی اور اللہ تعالیٰ کے بندے ہونے کے ناطے ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی کریمؐ کی شریعت اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ مہذب معاشرے اُسی وقت کامیاب و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں جب وہ اللہ اور اُس کے رسولؐ اللہ کا نظام اپنی زندگیوں پر نافذ کریں۔ ہمارے ماڈرن ازم کے حامی سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں اس موقع پر ڈانسنگ، میوزیکل پروگرامز مرتب کئے جاتے ہیں۔ ہما رے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں، بچیوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائیں۔ اپنے بچوں، بچیوں کو اس کافرانہ، غیر اسلامی رسومات سے دور کرکے اللہ اور اُس کے رسول ؐاللہ کی اتباع کر کے غیرت مندی کا ثبوت دیں۔ اسلام میں اخلاق سوز باتوں کی تشہیر کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ہمارے سوشل میڈیاز میں ان اخلاق سوز باتوں کی تشہیر کو پرو موٹ کیا جا رہا ہے۔
قرآن کی روشنی میں حیاء کی فضلیت اہمیت۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں ’’ بیشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی، فحاشی پھیلے ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ( سورہ النورآیت نمبر: 20)۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ تم بہترین اُمت ہو جنہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بنایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُراءی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘ ( سورہ آل عمران آیت نمبر: 110)۔
پھر ارشاد فرمایا ’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے منع کرتے ہیں‘‘ ( سورہ توبہ آیت نمبر: 71)، پھر ارشاد فرمایا ’’ سو جب وہ بھول گئے جب ان کو سمجھایا جاتا تھا سو ہم نے اُن لوگوں کو نجات دی جو بُرائی سے روکتے تھے اور ظالموں کی سخت عذاب سے گرفت کی یہ سب اس لئے جو وہ نافرمانیاں کیا کرتے تھے‘‘ ( سورہ الاعراف، آیت نمبر: 165)۔
احادیث کی روشنی میں حیاء کی فضلیت و اہمیت: سیدنا ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا ’’ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں ہے اور بے شرمی، بے حیائی ظلم کا حصہ ہے اور ظلم جہنم میں ہے ( ترمذی)۔
اُم المومینین سیدہ اُم سلمہ ہندؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں کہ تم پر عنقریب ایسے حکمران آجائیں گے جن کے کچھ کاموں کو تم پسند کرو گے اور کچھ کو ناپسند کرو گے پس جس نے اُن کے بُرے کاموں کو ناپسند کیا وہ بری ہو گیا جس نے انکار کیا وہ بچ گیا لیکن جو راضی ہوا اور ان کی پیروی کی وہ ہلاک ہو گیا، صحابہ کرام ؓ نے عرض کی اللہ کے رسولؐ کیا ہم ایسے حکمرانوں کا قتال نہ کریں؟، آپؐ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ تمہارے اندر نماز کو قائم نہ رکھیں‘‘ ( صحیح مسلم)۔ اللہ کے نبیؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ پہلے نبیوںٌ کے کلام سے جو بات لوگوں تک پہنچتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تجھے حیاء نہیں تو پھر تو جو چاہے کر‘‘ ( متفق علیہ) نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’ کہ ہر دین کی ایک خاص صفت ہو تی ہے اور اسلام کی صفت ’’ حیائ‘‘ ہے ( موطا امام مالک) شریعت میں حیاء اُس اچھائی کا نام ہے جو انسان کو ان تمام چیزوں کے چھوڑنے پر اُبھارے جو شریعت میں قبیح ہیں اور اسی بنا ء پر ارشاد نبویؐ ہے: ’’ حیاء خیر ہی کی موجب ہو تی ہے‘‘ ( مشکوۃ) ۔
شرم و حیاء گو یا انسانی زندگی کے لئے ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے، افعال میں ہو، اخلاق میں ہو یا اقوال میں جس میں حیاء کا جذبہ ہی نہ ہو اسی کے لئے ہر آن گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ رسولؐ اللہ ارشاد فرماتے ہیں ’’ شرم اُ ٹھانے کے بعد جو جی میں آئے کرو‘‘ ( مشکوۃ) ’’ حیائ، ایمان کا جزو ہے‘‘ ( مشکوۃ)۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’ حیاء ایمان سے ہے اور ایمان دار جنت میں ہو گا بے حیائی بداخلاقی ہے اور بد اخلاق کا مقام جہنم ہے‘‘ ( صحیح بخاری)۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’ حیاء بہتری ہی لاتی ہے ‘‘ ( موطا امام مالک)۔ نبی کریمؐ کا ایک شخص کی طرف سے گزر ہوا جو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کی نصیحت کر رہا تھا نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا اس کو چھوڑ دو بیشک حیاء تو ایمان سے ہے ( صحیح بخاری)۔
رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے ’’ حیاء میں خیر ہی خیر ہے‘‘۔ ( صحیح مسلم)۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’ حیاء بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے‘‘ ( صحیح بخاری، مسلم)۔ حضورؐ نے ارشاد فر مایا ’’ جس میں حیاء ہو گی اس میں ایک خاص قسم کی زینت پید اہو گی‘‘ ( ترمذی)۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ حلیم ہیں، حلم اور نرمی کو پسند کرتے ہیں ( صحیح بخاری، مسلم)۔ اُم المومینین سیدنا عائشہ صدیقہؓ فر ماتی ہیں کہ ’’ تم ہر کام میں نر می کیا کرو دیکھو جب اللہ تعالیٰ کسی کسی گھر والوں پر بھلائی اور خیر کو نازل کرنا چاہتا ہے تو ان کو سب سے پہلے رفق کی توفیق عطا کرتا ہے‘‘ ( احمد)۔ حیاء اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک چیز ہو گی تو سمجھو دوسری بھی ساتھ ہو گی ( مشکوۃ)۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں لو گو! اللہ تعالیٰ سے حیاء کرو اور حیاء کا حق ادا کر دو کسی نے رسولؐ اللہ سے پو چھا کہ اللہ کے نبیؐ ہم اللہ تعالیٰ سے شرماتے تو ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا یہ حیاء نہیں ہے بلکہ دماغی تخیلات پر پورا پو را قابو رکھا جائے، پیٹ کو حرام سے بچایا جائے، موت کو کثرت کے ساتھ یاد رکھا جائے، قبر میں ہڈیوں کے گل سڑ جانے کا دھیان رہے جو شخص آخرت کا ارادہ رکھتا ہے وہ دنیا کی نمود و نمائش، زینت و آسائشوں کو ترک کر دیتا ہے جس نے یہ کام کئے اللہ تعالیٰ کی حیا کا صحیح حق ادا کر دیا‘‘ ( ترمذی)۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے اپنے دلوں میں نرمی پیدا کرو نرمی سے انسان میں زینت پید اہو تی ہے سختی عیب کی چیز ہے ( صحیح مسلم)۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے نر می کر نے والوں اور آسانی کر نے والوں پر دوزخ کی آگ حرام ہو جا تی ہے ( ترمذی)۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں بھی یہ بات واضح ہو تی ہے کہ قرآن و سنت میں جن اخلاقی قدروں کا تذکرہ کیا ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حد کو نہیں پھلانگنا چاہئے اور اسلامی ضابطے کی مکمل پابندی کرتے ہوئے اس موقع پر لغویہ، عشقیہ پروگراموں کو ہر گز پروموٹ نہیں کر نا چاہئے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر جس قدر اسلامی اقدار کی بے حرمتی کی جاتی ہے اُس کی کائنات میں کوئی بد ترین مثال نہیں ملتی۔ بد کاری، بد اخلاقی، فحاشی و عریانی، رقص و سرور، شباب و شراب اور دیگر تفریحات کا جس قدر اہتمام کیا جاتا ہے اللہ کی پناہ لگتا ہی نہیں کہ ہم کسی اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہمارا اولین فریضہ ہے کہ ہم بُرائی کو اپنے ہاتھوں سے روکیں اور لوگوں کو اچھائی کی طرف دعوت دیں لیکن ہر سال 14فروری کو میڈیا سمیت دیگر مقامات پر جو اخلاق سوز تفریحات اور پروگراموں کا اجراء کیا جاتا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ اسی طرح حدیث کی روشنی میں بھی واضح پیغام موجود ہ ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر گیا ہے۔
آج ہمیں دین اسلام کی طرف سچے دل سے پلٹنا چاہے ہمیں شیطان کی پیروی کرنے کی بجائے اللہ اور اُس کے رسولؐ اللہ کی جو احکامات ہیں اُس نظام زندگی کو ہی اپنے او پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی ختم ہو کر اُس کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہم نازل ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں سچا مسلمان بننے اور جو رسولؐ اللہ کا طرز زندگی ہے اُس کا عملی نمونہ بننے کی توفیق عطا فرمائے نیز اللہ تعالیٰ ہمیں شیطانی، انسانی فتنوں اور انکے شر سے محفوظ رکھے ( آمین ثم آمین)۔

جواب دیں

Back to top button