Column

مہنگائی کے وار ۔۔۔ عوام مشکل کا شکار

تحریر : صفدر علی حیدری
ایک وقت تھا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر تین ماہ بعد بدلی جاتی تھیں۔ پھر ملک میں جمہوریت کا سیاہ دور شروع ہوا تو یہ وقفہ گھٹ کر ایک ماہ ہوگیا۔ تحریک انصاف کی ناتجربہ کار حکومت نے اسے پندرہ دن کر دیا جسے موجودہ تجربہ کار حکومت سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ کل ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پھر بڑھنے کی ’’خوش کن‘‘ اطلاع ملی ہے۔ اسے یقیناً مرے پر سو درے ہی کہا جائیگا۔ یاد پڑتا ہے ناتجربہ کاروں کی پچھلی حکومت میں پٹرول کی قیمت ایک سو انچاس روپے تھی جو اب تجربہ کاروں کے دور میں غالباً دو سو ساٹھ کے قریب ہے، حالاں کہ عالمی منڈی میں تب کی نسبت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں خاصی کم ہیں، اب سو ڈالر فی بیرل سے کم ہے تب سو ڈالر فی بیرل سے زیادہ تھی (لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہ ملک چل ہی پٹرولیم مصنوعات پر اور بجلی کے بلوں پر رہا ہے)۔ سو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے بلوں میں من چاہا اضافہ کرکے خزانے کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز کی قیمت خود ہی بڑھ جاتی ہے۔ رہی سہی کسر شاطر دکان دار خود ساختہ اضافے سے پوری کرلیا کرتے ہیں۔ پھر بھی خزانہ ہے کہ عمرو عیار کی زنبیل طرح خالی کا خالی رہتا ہے۔ لالچی آدمی کا پیٹ تو چلو قبر کی مٹی بھر دیتی ہے، اس خزانے کا کیا کریں کہ یہ تو کسی طور نہیں بھرتا۔ سود پر قرض لے کر بھی نہیں۔ اب ایسے اضافوں سے عوام کی کیا حالت ہوگئی ہے، محتاج بیاں نہیں۔ ان حالات میں کچھ عجیب خبریں بھی آرہی ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دیدی ہے، جس کے بعد ہر رکن کو ماہانہ تنخواہ پانچ لاکھ انیس ہزار روپے ملا کرے گی۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہ میں یہ اضافہ یکم جنوری 2025سے لاگو ہوگا۔ یعنی ارکان اسمبلی کو جنوری کی نظرثانی شدہ تنخواہ دی جائیگی۔ طلال چودھری نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت خطے میں سب سے کم پاکستان کے پارلیمنٹرینز کی تنخواہیں ہیں۔ سچ ہے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ کھاتے وقت ہو جاتی ہیں۔ اس بل پر سب راضی ہیں۔ ہر جماعت کے لوگ ہر بات پر اختلاف کرتے ہیں سوائے اس معاملے کے۔ آپ لوگ اگر خود خریداری کرتے ہیں تو اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہمارے یہاں مہنگائی سے زیادہ خود ساختہ مہنگائی مسئلہ ہے۔ قیمتوں میں من مرضی کا اضافہ ایک عام سی بات ہے۔ آپ اگر منڈی سے یا کسی تھوک فروش سے سامان نہیں خریدتے تو آپ کی جیب سے پیسے کچھ زیادہ نکلیں گے۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے ماہانہ بجٹ میں
ہزاروں کی کمی کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ وہ ادارے جو اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو نافذ کرتے ہیں وہ کہاں ہیں؟ دکان داروں کی دیدہ دلیریاں اور من مانیاں کیوں جاری ہیں؟ انتظامیہ کو انتظامیہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ بہتر انتظار کرتی ہے ، معاملات کو حل کرتی ہے، سلجھاتی ہے۔ کہتے ہیں جتنا قاعدہ اتنا فائدہ مگر افسوس یہاں قاعدے قانون کا دور دور تک کوئی پتہ نشان نہیں ہے۔ مقامی حکومتوں کا کردار گھنائونا ہے مگر اس میں بھی ان کا قصور نہیں ہے۔ ان کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ ان کو اختیارات ملے ہی کب ہیں کہ ان کے احتساب کی نوبت آتی۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کی باتیں بس باتیں ہی ہیں۔ جمہوریت کا حسن ہی یہی ہے کہ اقتدار کسی ایک ذات تک محدود و مرکوز نہیں رہتا ۔ اس سے معاملات سلجھانے میں مدد ملتی ہے۔ احتساب کا عمل مؤثر انداز سے کام کرتا ہے۔ کام اچھی طرح سے بانٹے جاتے ہیں۔ ڈویژن آف لیبر کا قانون پوری طرح نافذ دکھائی دیتا ہے جس سے معاشرے میں سدھار آتا ہے۔ ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ افراد کو من مانیاں کرنے کی اجازت نہیں ملتی ۔ اس سے امور مملکت چلانا آسان ہو جاتا ہے ۔ انتظامات میں سدھار آتا ہے۔ یہ ذکر ہے ہمارے بچپن کا۔ شاید ضیاء الحق کے آمرانہ دور کے شروعاتی سال تھے۔ یہ راشن کارڈ کا دور تھا۔ ہر ہفتے راشن کارڈ پر چینی ملا کرتی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ چینی صرف راشن کارڈ کی انتظامیہ کے پاس ہوا کرتی ہے ۔ ایک دن ایک کریانہ سٹور پر چینی کی بوری دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ چینی، اتنی ڈھیر ساری اور وہ بھی کسی ایک شخص کے پاس۔ ہمیں یاد ہے کہ اس دور میں سال میں ایک بار چیزیں ذخیرہ کی جاتی تھیں اور سال میں ایک بار جون میں بجٹ کے موقع پر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا کرتا تھا ( کبھی نہیں بھی ہوتا تھا) آج مگر صورت حال یہ ہے کہ ہر ہفتے عشرے بعد قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ جیسے چینی کی قیمت میں پندرہ سے بیس روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ سرمایہ کاروں نے چینی خرید کر ذخیرہ کی ہوئی تھیں سو اب وہ منافع کما رہے ہیں ۔ جب سے
یہ حکومت آئی ہے۔ اور جب انہوں نے ڈاکہ مار کر ایک حکومت ہتھیائی تھی، کوئی ایک چیز بتا دیں جس کی قیمت کم ہوئی ہو۔ میرے خیال میں سولر پینلز ہی وہ واحد چیز ہے جس کی قیمت کم ہوئی ہے ۔ اب اس کو تو اشیائے ضرورت میں شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ نہ ہر آدمی اسے خرید سکتا ہے ۔ ضیاء دور کے دوران جتنی بھی جمہوری یا جمہوریت نما آمرانہ حکومتیں آئی ہیں، انتظامی حوالے سے ان کے معاملات پر ان کی گرفت ڈھیلی ہی رہی ہے۔ مشرف کا دور بھی ان جیسا ہی تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ اس کے ابتدائی دور میں گھی کی قیمت چوالیس روپے کلو تھی۔ اسی دوران ان کا ایک خطاب سننے کو ملا جس میں وہ گھی کمپنیوں کے مالکان سے فرما رہے تھے کہ انھیں عوام کو ریلیف دینا چاہئے۔ اس خطاب کا نتیجہ جلد برآمد ہوا اور ٹھیک دو ہفتے بعد گھی کی قیمت ایک سو پچاس ہو گئی۔ اب اگر گھی کمپنیاں وعدہ کرکے مکر جائیں اور ڈھٹائی سے گھی بنانے کا کام جاری رکھیں تو کیا حرج ہے ۔ آخر جمہوری دور ہے صاحب۔ یہ سب کچھ ہمارے صوبے میں ہورہا ہے۔ صوبے کی وزیراعلی کو آج کل صفائی کا خبط پڑا ہوا ہے سو تجاوزات کیخلاف آپریشن جاری ہے۔ اس سلسلہ میں غریب کو رگڑا لگ رہا ہے۔ اتنی ہمت ہے تو کسی امیر پر ہاتھ ڈال کر دکھائیں۔ ان بااثر افراد پر ہاتھ ڈالیں جنہوں نے سرکاری املاک پر پلازے کھڑے کر رکھے ہیں۔ تجاوزات یقیناً بری چیز ہیں مگر آغاز امیر طبقے سے کیا جائے۔ ان پر پکا ہاتھ ڈالا جائے۔ غریب بے چارہ تو یہ سب دیکھ کر خود ہی ڈر سہم جائے۔ ایک بار نوازشریف ملک کے وزیر اعظم تھے اور سیلاب سے گھرے ہوئے ایک گھر کی دیوار پر گارا رکھ رہے تھے۔ یہ منظر خبرنامے میں دکھایا گیا تو خوب واہ واہ ہوئی۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کام جو پٹواری کا تھا اگر وہ وزیراعظم کرے گا تو وزیراعظم کا کام کون کرے گا۔ صاف پنجاب کا منصوبہ اپنی جگہ مگر مہنگائی پر کنٹرول کرنا اور سرکاری نرخوں پر قیمتوں کی فروخت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے۔ مان لیجئے کہ حکومت سے ترک اولی ہوا ہے۔ اب بھی وقت ہے اپنی ترجیحات کا تعین پھر سب کیجئے۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔ المیہ دیکھئے کہ ہمارے stick holstersکو سمجھ نہیں آ رہی کہ ناتجربہ کار نااہل اچھے تھے یا تجربہ کار نااہل۔ پہلے ان کو لانچ کیا گیا اور اب ان کو قوم کے سروں پر مسلط کیا گیا ہے، آخر یہ پتلی تماشا کب تک جاری رہے گا؟ ملک کی تقدیر اور اس کے عوام سے یہ کھلواڑ کب تک جاری رہے گا؟

جواب دیں

Back to top button