عمران خان کی جیل میں سہولتوں کی بات

تحریر : امتیاز عاصی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جیل میں سہولتوں سے متعلق درخواست نمٹا دی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ عامر فاروق نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے عمران خان کو دی جانے والی سہولتوں بارے استفسار کیا تو سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری اشفاق انجم نے عدالت کو بتایا عمران خان کو سولہ ٹی وی چینلز او دو اخبارات کی سہولت میسر ہے۔ اس کے علاوہ ایک قیدی مشقتی اور ہفتہ میں چار مرتبہ ملاقات کی سہولت دی گئی ہے حالانکہ جیل مینوئل میں قیدی کی ہفتہ میں دو بار ملاقات کی اجازت ہے۔ عمران خان کو بیرون ملک کال کی سہولت بارے سپرنٹنڈنٹ نے موقف اختیار کیا عمران خان کو اوورسیز کال کی اجازت دی گئی تو جیل میں اور بھی بہت سے غیر ملکی قیدی ہیں جو بیرون ملک کال کا تقاضا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک جیل میں صحت کی سہولتوں کی بات ہے انہوں نے بتایا میڈیکل آفیسر روزانہ بنیادوں پر قیدیوں کو چیک کرتے ہیں۔ ہم سابق وزیراعظم کو جیل میں اضافی سہولتوں پر معترض نہیں۔ عمران خان کو جیل میں بی کلاس کے قیدیوں کے لئے مختص جگہ سے علیحدہ رکھنے کا مقصد سیکیورٹی خدشات ہیں۔ سابق وزیراعظم کو بی کلاس کی سہولت صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کے احکامات پر دی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم کو چار چار سیلوں پر مشتمل دو پہروں کو ایک پہر ہ بنا کر چہل قدمی کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کو اندرون جیل امن و امان برقرار رکھنے کے لئے بعض مواقع پر صوابدیدی اختیارات بروئے کار لانے پڑتے ہیں۔ بعض حلقے اس پر معترض ہیں شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کو بی کلاس کے لئے مختص جگہ پر کیوں نہیں رکھا گیا۔ جیلوں میں جب کوئی سیاست دان یا سیکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کسی جرم کی پاداش میں آجائیں تو انہیں حفاظتی نقطہ نظر سے دیگر حوالایتوں اور قیدیوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں جیلوں میں مختلف نظریات کے لوگ ہوتے ہیں ان کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہے لہذا ایک سابق وزیر اعظم کو عام قیدیوں اور حوالاتیوں کے ساتھ کسی طور رکھنا درست نہیں۔ عمران خان کو سولہ ٹی وی چینلز کی سہولت میسر ہے، ہمیں تو بی کلاس
ہونے کے باوجود سزائے موت میں ڈش لگانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک رات اس وقت کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نور حسین بگیھلہ تلاشی کرنے آئے تو انہوں نے ہمارا ٹی وی سیل سے باہر رکھوا دیا، جب ہم نے انہیں سیکرٹری داخلہ کے اجازت نامہ کا حوالہ دیا تو برہم ہوئے اور ہمیں قصوری بلاک بند کرنے کو کہا۔ خیر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہم قصوری بلاک جانے سے بچ گئے۔ یہ حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے جیلوں میں سیلوں کے اندر ٹی وی رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، البتہ عمران خان کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا ہے انہیں جیل مینوئل سے ہٹ کر بعض سہولتیں عدالتوں کے احکامات پر فراہم کی گئیں، جیسا کہ ورزش کے لئے مطلوبہ سہولت وغیرہ۔ اب ہم آتے ہیں سابق وزیراعظم دی جانے والی کھانے کی سہولتوں کی طرف جیسا کہ ہمیں علم ہوا ہے صبح ناشتے میں انہیں کافی، چپہ سیڈ، چکندر کا جوس، دہی بسکٹ اور کھجوریں۔ دوپہر کے کھانے میں کڑی پکوڑا، دیسی مرغی، دہی، چپاتی، کوک، سلاد اور گرین ٹی اور مٹن جبکہ رات کے کھانے میں دلیہ، کوکونٹ، کوکونٹ کا جوس اور انگور وغیرہ۔ یوں تو اب گزشتہ کئی برس سے بی اور سی کلاس کے قیدیوں کو لنگر سے پکا ہوا کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں بی اور سی کلاس کے قیدیوں کے کھانے کا معیار بہتر کرکے ایک کر دیا گیا تھا، ورنہ بی کلاس کے قیدیوں کو جیل گودام سے کچا راشن مہیا کیا جاتا تھا۔ ہماری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے لئے کھانا ایک اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے ایم کیو ایم کے ایک رہنما کے قتل میں ملوث ملزمان کا کھانا جیل افسر کی نگرانی میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی جیلوں میں حساس مقدمات میں ملوث ملزمان کو سیکیورٹی وارڈ میں عام قیدیوں حوالاتیوں سی
علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کوئی جرم کیا یا نہیں اس سے قطع تعلق ہم جیلوں میں قیدیوں کو ملنے والی مروجہ سہولتوں تک محدود رہیں گے۔ یہ ناچیز تیرہ برس تک سزائے موت کے سیل میں بی کلاس کی سہولت کے ساتھ رہا نہ تو ہمیں ورزش کے لئے کوئی سامان لانے کی اجازت تھی نہ ہی اپنے چند فٹ کے پہرے سے باہر نکلنے کی۔ یہ ضرور ہے ہم سرکاری کنٹین سے ضروری اشیاء منگوا لیا کرتے تھے۔ سابق وزیراعظم کو جیل مینوئل سے ہٹ کر خاصی سہولتیں میسر ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے قیدیوں کو خواہ کتنی سہولتیں میسر ہوں قید کا ایک ایک لمحہ انسان کے لئے گزرانا دشوار ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی حضرت یوسف ٌ نے ایسے تو نہیں کہا تھا جیل خانہ جہنم کا ٹکڑا ہے۔ قید و بند میں رہنے والوں کو ہمارا یہی مشورہ ہے انہیں ہر لمحہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی یاد میں رہنا چاہیے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا کامل ایمان ہے کوئی صدق دل سے حق تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے تو منعم حقیقی معاف کرنے والے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں اخبارات سے پتہ چلا ہے وہ قرآن حکیم کی تلاوت ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کرتے ہیں، جو ایک مومن کے لئے بہت ضروری ہے۔ عمران خان کو حق تعالیٰ سے لو لگائے رکھنی چاہیے اپنا زیادہ وقت اپنے گناہوں کی بخشیش کا طلب گار رہنا چاہیے۔ سزائے موت میں زندگی کے تیرہ برس میں ہمیں یہی تجربہ ہوا ہے قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ وقت حق تعالیٰ کی یاد میں گزارنا چاہیے اسی میں عافیت ہے۔ دراصل اقتدار میں رہتے ہوئے انسان کو نہ تو یاد اللہ رہتی ہے نہ کوئی کام کرتے وقت قانون یاد رہتا ہے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد آنے والی حکومت جانے والوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ عمران خان نے صاحب اقتدار کے خلاف مقدمات قائم کئے ان کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے منی لانڈرنگ کیس میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے کے خلاف فرد جرم لگوانے میں ناکام رہے۔