قوانین بھی بنائے جائیں، مگر مشاورت سے

تحریر : خالد محمود
معاشرہ بڑی تیزی سے ایسے ذرائع ابلاغ کی طرف متوجہ ہو رہا ہے کہ جہاں لوگ اپنی مرضی سے اپنے نقطہ نظر کا آزادانہ اظہار کر سکیں، لیکن آزادی رائے کا حق ذمہ دارانہ رویہ سے مشروط ہے ، اس میں سماج، ثقافت، روایت اور مذہب کے وضع کردہ ضوابط اپنانا پڑتے ہیں، جعلی خبریں پھیلانا اور دوسروں کی عزت اچھالنا کسی طور قابل قبول نہیں ، اظہار رائے ضرور ہونا چاہئے، مگر اخلاقیات کے دائرے میں، اس کیلئے ضابطہ اخلاق اور قوانین کا اطلاق بھی ہو نا چاہئے، قوانین بھی بنائے جائیں، مگر مشاورت سے، یکطرفہ قوانین کی منظوری کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا ہے۔
یہ بات جانتے ہوئے بھی پرانی روایت ہی دہرائی جارہی ہے اور بحث و مشاورت کے بغیر بڑی پھرتیوں سے بل منظور کرائے جارہے ہیں۔ حکومت نے فیک نیوز پر قانون سازی کرتے ہوئے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025منظور کروا لیا گیا ہے، اور صدر مملکت نے بھی اس کی منظوری دیدی ہے، جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔ پیکا ایکٹ کے اہم نکات کے مطابق فیک نیوز پر تین سال قید، بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی، اس میں جرم پر اکسانا، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، اسلام و پاکستان مخالف، عدلیہ اور فوج کے خلاف مواد غیر قانونی شمار ہو گا، اس مجوزہ ترمیم میں سوشل میڈیا کی نئی تعریف بھی شامل کی گئی ہے، اس حوالے سے سوشل میڈیا پروٹیکشین اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی ، اس اتھارٹی کو سوشل میڈیا مواد ریگولیٹ کرنے، شکایات پر مواد کو بلاک یا ختم کرنے کا اختیار ہو گا، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین اور اس پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنانے کی مجاز ہو گی۔
ہر حکومت میں اظہار رائے پر پابندیاں لگا نے کیلئے مختلف بہانوں سے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں ، اس بار بھی آزمائے جارہے ہیں، یہ پیکا ایکٹ بھی اس سلسلے کی ہی کڑی ہے۔اِس متنازعہ قانون پر ناصرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے ارکان، بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی سخت تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، اس بل کے پیش ہو نے پر جہاں اپوزیشن جماعتوں نے بھوپور احتجاج کیا، وہیں صحافیوں نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا ہے، اس ہنگامہ آرائی کے دوران وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ صحافیوں کے پاس گئے اور دعویٰ کیا کہ یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے، بل کی منظوری پر بھی کہا جارہا ہے کہ اظہار رائے پر نہیں، فیک نیوز پر پابندی لگائی جارہی ہے، جبکہ سب ہی جانتے ہیں کہ فیک نیوز تو ایک بہانہ ہے، اصل میں سوشل میڈیا نشانہ ہے، فیک نیوز کی روک تھام پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، اس کیلئے قانون سازی ہو نی چاہئے، لیکن اس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے، اس قانون سے اظہار رائے کی جائز آزادی متاثر نہیں ہونی چاہئے، اگر عدالت میں کسی کیخلاف کارروائی میں انتظامیہ کی بدنیتی ثابت ہو جائے تو اس پر بھی تادیبی کارروائی ہونی چاہئے، آزادی صحافت اور آزادی رائے کے آئینی حق کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جانا چاہئے، لیکن اس قانون سازی کی منظوری کے دوران حکومتی رویئے کو دیکھتے ہوئے ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
معاملہ انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے، اب بھی دیر نہیں ہوئی، پیکا ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی جائے اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی قانون سازی ہونی چاہئے، جس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں، کیونکہ ہمارے ہاں قوانین کو ان کی روح کے مطابق رائج کرنے کے بجائے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے رجحان کی شکایات عام ہیں، اس لیے جب تک تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی سفارشات قانون سازی میں شامل نہیں ہوں گی، ایسی ترامیم کی منظوری کارآمد ثابت نہیں ہو سکے گی۔