ColumnImtiaz Aasi

جوڈیشل کمیشن اور بحران

تحریر : امتیاز عاصی

مملکت کے قیام سے ا ب تک ہمارا ملک کئی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ معاشی بحران تو ہمیشہ رہا اب سالوں سے سیاسی بحران کا غلبہ ہے۔ دہشت گردی کا عنصر ختم ہونے میں نہیں آتا۔ سیاست دان ہیں انہیں ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا بنگلہ دیش بدقسمتی سے ہماری اپنی نادانیوں کا ثمر ہے۔ چین ہم سے بعد میں قائم ہوا تینوں ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ہم ہیں آپس میں دست و گریبان ہیں۔ انتخابات ہیں کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کرنے کے بعد اب پچھتاوا ہے اسے حکومت کرنے دیتے وہ اتنا مقبول نہ ہوتا وغیرہ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہماری ترقی میں بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ ریاست کا کوئی ایک محکمہ نہیں جہاں کرپشن نہیں ہے۔ سیاسی اور فوجی حکومتوں نے احتساب کے ادارے بنائے جنہیں کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا گیا جس کے نتیجہ میں کرپشن وہیں کی وہیں ہے۔ عمران خان نے انتخابی مہم میں بے لاگ احتساب کا نعرہ لگایا اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ٹی وی چینل پر اس کا کہنا تھا اسے احتساب کرنے نہیں دیا گیا باجوہ صاحب نے اسے اپنی کارکردگی درست کرنے کو کہا۔ گزشتہ انتخابات میں جو ناٹک رچایا گیا اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چلیں جو ہوا سو ہوا فارم 47کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ تو سیاسی اور نہ ہی معاشی بحران ختم کر سکی دہشت گردی تو روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ فوجی جوان کب تک جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے ۔ ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمسائیوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ بھارت تو ہے ہی ہمارا ازلی دشمن۔ افغانستان کی جنگ میں کودنے کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ رہی بھارت کی بات وہ تو ہمارے خلاف کوئی لمحہ خالی رہنے نہیں دیتا بلوچستان ہو یا کے پی کے افغانستان سے باہم مل کر دہشت گردی کو فروغ دیا۔ عمرا ن خان کو طعنہ دیا جاتا ہے دہشت گردوں کی دوبارہ آبادی کاری ہے۔ سوال ہے اس طرح کے فیصلے کیا عمران خان تنہا کر سکتا تھا؟ سیاست دان فیصلہ سازوں کا نام لینے سے خائف ہیں۔ سرمایہ کاری کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود کہیں سرمایہ کاری دکھائی نہیں دے رہی۔ ہم چین سے دوستی کا ہمالیہ سے بلند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، بھارت کو ویزا فری کر دیا، ہمیں چین نے یہ سہولت کیوں نہیں دی؟ ہم عمران خان کو بھی دانا سیاست دان نہیں سمجھتے وہ جذباتی سیاست دان ہے۔ ٹی وی چینل پر کہا اسے گرفتار کیا گیا تو سخت ردعمل آئے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا سانحہ نو مئی پیش آیا۔ آخر کچھ تو سچائی ہوگی ورنہ ملک میں بیک وقت سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانا کہاں کی عقلمند ی تھی۔ ڈی چوک پر جو کچھ ہوا ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ بھلا احتجاج ڈی چوک پر کیوں ضروری تھا جلسہ کہیں اور بھی ہو سکتا تھا۔ حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکاری تھا وہ طاقتور حلقوں سے مذاکرات کا خواہاں تھا آخر انہی سے مذاکرات کرنے پڑے جن سے ہاتھ ملانا گوارا نہیں تھا۔ مذاکرات ادھورے رہ گئے۔ عدالتی کمیشن نہ بنانے کا حکومتی موقف درست ہے۔ قانون دان اور راست باز لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جناب عباد الرحمٰن لودھی سے اس سلسلے میں ماہرانہ رائے لی تو جج صاحب نے حوالہ دیا انکوائری کمیشن ایکٹ 1956کے تحت جب کوئی معاملہ عدالت میں ہو تو عدالتی کمیشن نہیں بنایا جا سکتا۔ ہاں البتہ اگر پی ٹی آئی سانحہ کے فوری بعد عدالتی کمیشن کا مطالبہ کرتی تو اور بات تھی۔ پی ٹی آئی کو علم تھا مذاکرات میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں چنانچہ اسی لئے سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، ہمیں حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ عمران خان کے نواز شریف حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں طویل دھرنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو نئے امریکی صدر سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں ٹرمپ نے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا، ہماری بیٹی عافیہ صدیقی کو معاف نہیں کر سکا، وہ مسلمان تھی۔ سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے، محمود اچکزئی نے پشتونستان کا نیا شوشہ چھوڑا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، سیاست دان ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہم عسکری قیادت سے درخواست کریں گے کسی طرح ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں تو ملک کے عوام ہمیشہ دعائیں دیتے رہیں گے۔ ایک ایسا احتساب جس میں کسی بڑے کا لحاظ رکھے بغیر کرپشن میں ملوث لوگوں کو گرفت میں لایا جائے تو یہ بات یقینی ہے ہمارا ملک بہت سے بحرانوں سے نکل پائے گا۔ انصاف کا تقاضا ہے پی ٹی آئی کے جو لوگ جیلوں میں ہیں عدالتوں پر دبائو ڈالے بغیر انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے تو بھی سیاسی بحران میں کمی آسکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے مقدمات کو عدلیہ پر چھوڑ دیا جائے تو سیاسی بحران کم ہو سکتا ہے۔ جس طرح عمران خان کے خلاف مقدمات کی سماعت تیزی سے ہو رہی ہے ماضی میں جو جو سیاست دان کرپشن میں ملوث رہے ہیں ان کے مقدمات عدالتوں میں زیر التواء ہیں ان کی سماعت روزانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے اور فیصلہ سازی عدالتوں پر چھوڑ دی جائے تو کرپشن میں کمی کی امید کی جا سکتی ہے۔26آئینی ترمیم کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ہمیں ملک سے سیاسی اور معاشی بحران کا خاتمہ کرنا ہے تو عدالتوں کو آزاد رکھنا ہوگا۔ جن اقوام میں انصاف ناپید ہو وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں کیا ہماری تباہی میں کوئی کسر باقی ہے؟، اے کاش ہم عدالتوں پر دبائو ڈالنا چھوڑ دیں تو ہمارے بہت سے مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی خلفشار سے محفوظ رکھنے کی صدق دل سے کوشش کرنی چاہیے نہ کہ ایوان میں رہتے ہوئے اپنی مفادات کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ سیاست دان اپنے مفادات کے حصول کے لئے یکسو ہو سکتے ہیں جیسا کہ اپنے الائونسز میں یکجا تھے ملک اور عوام کے مفاد کے لئے متحد ہونے سے کیوں گریزاں ہیں؟۔

جواب دیں

Back to top button