خواجہ آصف سے سوال؟

امتیاز عاصی
ان دنوں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اخبارات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ملک ریاض نے رئیل اسٹیٹ میں واقعی منفرد مقام حاصل کیا۔ اپنے کیریئر کا آغاز ایم ای ایس کے معمولی کنٹریکٹر کی حیثیت سے کیا۔ نصف صدی قبل سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی کے کوارٹر کے رہائشی ملک ریاض کی لمبرٹیا سواری تھی۔ سیالکوٹ کے گائوں کوٹلی لوہاراں کے رہنے والے ملک ریاض کی خوبی یہ ہے اس نے اپنے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ عسکری شعبہ سے ریٹائر ہونے والے اعلیٰ افسران کو ترجیع دی۔ اگلے روز ملک ریاض کا اخباری بیان نظر سے گزرا تو میں حیرت زدہ رہ گیا خواہ کچھ ہو جائے وہ جھوٹی گواہی نہیں دے گا۔ دراصل ملک ریاض عمران خان کے خلاف ایک سو نوے ملین پونڈ کیس میں اہم گواہ تھا، جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو عدالت سے سزا ہو چکی ہے۔ سوال ہے اب جب کہ عدالت سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزائیں ہو چکی ہیں ملک ریاض کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ حالات اور واقعات سے پتہ چلتا ہے ملک ریاض اس مقدمہ میں گواہی نہ دے کر حکومتی عتاب کا شکار ہو گیا اور اس کے خلاف برسوں پرانے مقدمات کھل گئے ہیں حالانکہ ایسے اداروں کو خواہ کوئی کتنا بڑا کیوں نہ ہو کوئی شکایت موصول ہو تو بلاتاخیر تفتیش کا آغاز کرنا چاہیے۔ ہماری بدقسمتی ہے ملک میں کرپشن
کے خلاف جو ادارے بنائے گئے انہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا جس کے نتیجہ میں کرپشن کے خاتمے کی بجائے ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوتا گیا۔ عام طور پر ملک ریاض سطح کے بزنس سے وابستہ افراد کسی تنازع میں کم ہی پڑتے ہیں، لیکن ملک ریاض نے عمران خان کے خلاف گواہ نہ بن کر نئی مثال قائم کی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف جن کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے پراپرٹی ٹائیکوں پر آج تک کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا لیکن اب اس کا بچنا مشکل ہے اور عدالتوں سے بھی اسے ریلیف نہیں ملے گا۔ ہمیں خواجہ آصف کی یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے ملک ریاض کا بچنا مشکل ہے لیکن عدالتوں سے بھی اسے ریلیف نہیں ملے گا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، حکومت عدالتوں پر اپنا اثر و رسوخ ڈالے رکھتی ہے ۔ خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد ملک کے عوام کو کسی شک میں نہیں رہنا چاہیے حکومت بہت سے معاملات میں عدلیہ پر دبائو رکھتی ہے۔ خواجہ آصف کا دعویٰ ہے دبئی کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہد ہ ہونے کی بنا ملک ریاض کو وطن واپس لایا جائے گا۔ سوال ہے ملک ریاض نے رئیل
اسٹیٹ کا کاروبار ابھی شروع نہیں کیا وہ کئی عشروں سے اس کاروبار سے منسلک ہے۔ اس دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کئی مرتبہ حکومت کر چکے ہیں دونوں جماعتوں کے قائدین نے ملک ریاض پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کیوں نہیں کی انہیں ایسا کرنے سے کس نے روکا تھا؟ خواجہ آصف کی پریس کانفرنس سے ذہن میں سوال آتا ہے اب اچانک حکومت کو ملک ریاض کی خامیاں نظر آنے لگی ہیں بلکہ خواجہ آصف نے کسی نہ کسی کی ایماء پر پریس کانفرنس کی ہے ورنہ کئی عشرے گزرنے کے بعد ایک وفاقی وزیر کو ملک ریاض کے خلاف پریس کانفرنس کی چنداں ضرور ت نہیں تھی۔ ملک ریاض کے خلاف راولپنڈی ضلع کے موضع تخت پڑی کی کئی ہزار ایکٹر اراضی جو محکمہ جنگلات کی ملکیت تھی کا مقدمہ اینٹی کرپشن میں درج تھا جو ملک ریاض کی درخواست پر قومی احتساب بیورو کو کئی سال پہلے منتقل ہوا تھا۔ خواجہ آصف نے ملک ریاض پر اراضی پر قبضہ کے الزامات بھی لگائے ہیں، ہم خواجہ صاحب کی تمام باتوں سے متفق ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا وفاقی وزیر ملک ریاض کی پشت پناہی کرنے والے حلقوں کی نشاندہی کرتے تو عوام کی نظروں میں باعث عزت و تکریم ٹھہرتے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ملک ریاض کو جنگلات کی ہزاروں ایکٹر اراضی کے علاوہ ضلع راولپنڈی کے دیہی علاقوں میں واقع ہزاروں ایکڑ سیاسی حکومتوں کے دور میں منتقل کی گئیں تو خواجہ صاحب اس کی ذمہ داری کس پر ڈالیں گے۔ خواجہ آصف نے ملک ریاض کے جرائم میں میڈیا کو برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ فرض کریں میڈیا نی پراپرٹی ٹائیکون کے جرائم کی پردہ پوشی کی ہے تو مسلم لیگ نون نے ملک ریاض کے جرائم کی پردہ پوشی نہیں کی؟۔ سوال ہے ملک ریاض کو سوسائٹیوں کی اجازت کیا میڈیا نے دی یا سیاسی حکومتوں نے دی ؟، ہمارے خیال میں پیپلز پارٹی کم اور مسلم لیگ نون زیادہ ذمہ دار ہیں، کیونکہ خواجہ آصف کی جماعت عشروں سے پنجاب میں حکومت رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے میڈیا سے وابستہ بعض حضرات نے ملک ریاض سے فائدے اٹھائے ہوں گے، لیکن سرکاری اراضی پر قبضہ اور بیوائوں اور یتیموں کی اراضی پر قبضہ کی اجازت میڈیا ورکرز نے تو نہیں دی ہوگی۔ اس کی ذمہ دار سیاسی حکومتیں ہیں۔ ملک میں رواج بن گیا ہے سیاست دان اپنی حکومتوں کی نااہلی اور مبینہ کرپشن کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ ملک ریاض کے خلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ کی تفتیش سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں شروع ہوئی ،ورنہ ہزاروں ایکٹر سرکاری اراضی کا مقدمہ زیرالتواء تھا۔ محکمہ جنگلات کی اراضی کے اسکینڈل میں ملوث محکمہ ریونیو پنجاب کے بعض افسران ملوث نہیں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، تحصیل دار، پٹواری اور گرداوار بھی شریک جرم ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لئے ملک ریاض کے خلاف مقدمہ کسی امتحان سے کم نہیں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی جن اخبارات کو ملک ریاض اپنی سوسائٹی کے اربوں کے اشتہارات دیتے تھے، آج وہی اخبار ملک ریاض کی ایک سطر شائع کرنے سے گریزاں ہیں۔ ملک ریاض کو جن جن سیاست دانوں ، سرکاری افسران اور میڈیا سے وابستہ لوگوں نے جنگلات کی اراضی پر پلاٹ حاصل کئی ہیں ان کے ناموں کی تشہیر کرنی چاہیے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ملکی اخبارات کی زینت بننے والا ملک ریاض فیس بک پر محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کیا وزیر دفاع خواجہ آصف ہمارے سوال کا جواب دیں گے ؟۔ قومی احتساب بیورو کو سرکاری اراضی کے اسکینڈل میں ملوث لوگوں کو بلاتاخیر قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔