Ali HassanColumn

پاکستان میں دولت کی نمائش کا مادی اظہار

تحریر : علی حسن
پاکستان میں دولت کا اظہار بیہودہ حد تک نمائشی ہے، جسے جدید زبان میں اب ’’ لائف سٹائل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اظہار اپنی نوعیت میں عمومی طور پر جاگیردارانہ اور شاہانہ ( رائل) ہے۔ اس کے مادی اظہار کی سب بڑی مثال قیمتی اور چمکیلی سْنہری اشیا کو اپنے جسم پر سجا کر دکھانا، اپنے گھر کو بڑی بڑی اور قیمتی سنہری اشیا اور تخت و تاج والے فرنیچر سے بھرنا، اپنے گھر کے دیواروں پر اپنی دولت کی نمائشی اشیا لٹکانا، بڑی بڑی گاڑیاں رکھنا وغیرہ، اور لمبے لمبے اور چمکیلے سِلکی ملبوسات شامل ہیں۔ روایتی طور پر اس اظہار میں گولڈن رنگ کے سارے شیڈز سب سے زیادہ حاوی ہے۔ اور دوسرے نمبر پر جدید اظہار میں سیاہ اور سفید رنگ، جو کہ دولت اور طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔ سنہرے رنگ کی جڑیں جزوی طور پر وکٹورین ثقافت اور جزوی طور پر عربی شاہی روایات سے جڑی ہوئی ہے۔ وکٹورین دور میں، سونا دولت، نفاست اور خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اسے عمارتوں کی خوبصورت آرائش، فیشن کے لوازمات اور اندرونی سجاوٹ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ دوسری طرف، عربی شاہی خاندانوں نے سونے کو طاقت، الوہیت اور خوشحالی کی علامت کے طور پر اپنایا، اور اسے شاندار محلات، رسمی لباس اور قیمتی نوادرات میں شامل کیا۔ ان ثقافتی ورثوں کے امتزاج نے سونے کو ہمیشہ کے لیے شان و شوکت اور عظمت کی علامت بنا دیا ہے۔
امریکہ میں بھی گولڈن رنگ اکثر دولت، عیش و عشرت اور کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ خوشحالی، کامیابی اور بالا دست طبقاتی حیثیت کی نمائندگی کرتا ہے اور اکثر ایوارڈز، زیورات اور شاندار ڈیزائنز میں نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاہ رنگ بھی دولت اور نفاست کی علامت ہے، خاص طور پر جدید سرمایہ دارانہ معاشروں میں۔ یہ انفرادیت، وقار اور طاقت سے جڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ مہنگے فیشن، رسمی لباس اور اعلیٰ برانڈز میں نمایاں ہے۔
مزید برآں، سفید رنگ بھی دولت اور برتری کی علامت سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر سادہ ڈیزائنز اور پْرتعیش گھریلو سجاوٹ میں۔ یہ صفائی، نفاست اور سادگی کی نمائندگی کرتا ہے، ایسی خصوصیات جو اکثر امارت سے منسلک سمجھی جاتی ہیں۔ یہ رنگ امریکہ میں دولت کی ثقافتی ترجمانی کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں سنہری رنگ شان و شوکت، سیاہ رنگ وقار، اور سفید رنگ سادہ عیش و آرام کو بیان کرتا ہے۔
اپنے ایک مضمون میں ممتاز سیاسی کارکن محترمہ عصمت شاہجہاں نی دولت کی نمائش پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اب تو حد یہ ہے کہ شادی بیاہ کے دعوت نامے اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ سوچنا پڑتا ہے کہ پاکستان معاشرہ کہاں جارہا ہے۔ ایک ایک شادی کارڈ ہزار ہزار روپے کا بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نمائش کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
دولت کے اس انداز میں اظہار کا تعلق ویبلن کے تصورِ ’ نمائشی صرفہ‘ سے ہے، جس کے مطابق افراد مادی اشیا کے ذریعے طبقاتی حیثیت، سماجی طاقت، رْتبہ اور اپنے سے زیادہ مالدار طبقے میں قبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے اٹلی کے شہر فلورنس میں کچھ دانشوروں سے پوچھا کہ عہدِ حاضر کے مڈیٹیرین ثقافت میں دولت کا اظہار ؍ طبقے کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ان
کے ہاں سب سے زیادہ نفیس اظہار جمالیات کے ذریعے کیا جاتا ہے ، جیسے کہ آرٹ اور ثقافت، یعنی فن پاروں، مجسموں اور ثقافتی اشیاء کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اور فنکاروں اور ثقافتی تقریبات کی سرپرستی، جیسے تہوار اور موسیقی کے مظاہرے بھی سماجی رتبے کا مظہر ہیں۔ اس کے علاوہ جدید آرٹیسٹک عمارت سازی بھی اس جمالیاتی اظہار کا حصہ ہے۔ اور اپنے بچوں کو آرٹ اور تعمیر سازی کی تعلیم بھی اس کا حصہ ہے۔ مہمانداری میں عمدہ ثقافتی کھانے بھی اس کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نفیس دولتمند مرد دولت کی نمائش کے بجائے کسی جزیرے پر اپنی محبوبہ یا فیملی کے ساتھ وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ درج بالا اظہار کے علاوہ، دولت کے مادی اظہار میں مہنگی گاڑیاں، کشتیاں، اور ڈیزائنر برانڈز شامل ہیں۔ تاہم، یہ مادی علامات اکثر روایتی انداز کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ یقیناً جہاں طبقاتی یعنی سرمایہ دارانہ سماج ہو گا، اور ارتکاز زر ہو گا، وہاں اْس کی نمائش بھی ہو گی۔ اور ایک سماج جس پیداواری و سماجی دور سے گزر رہا ہو گا، دولت کی نمائش کے طریقے بھی اْسی دور کے مطابق ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوموں کے تاریخی اور ثقافتی ورثے بھی اس اظہار پر اثر انداز ہوں گے۔ اور یہ کہ سماج کون سے مْلک کے زیرِ اطاعت ہے۔ یہ اظہار طبقاتی سماج کا اٹوٹ انگ ہے، اور اسے برقرار رکھنے اور اس کی افزائش کرنے میں بھی مدد گار ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر میں پاکستان میں سب سے زیادہ کرائون والے فرنیچر یعنی وہ فرنیچر جسے رائل لْوک دینے کے لئے اس کے بیک پر تاج بنائے جاتے ہیں، سونے کا لْوک دینے کے لئے اشیا کا گولڈن رنگ، شہر کے اندر بڑی بڑی گاڑیوں اور ڈالوں، کالے چشموں اور کالے بزنس سوٹ ،کلف لگے نوکدار کپڑوں والے مردوں اور سونے سے لدی عورتوں سے تنگ ہوتی ہوں۔
پاکستان میں نو دولتئوں نے دولت کی ریل پیل میں لوگوں کو چکا چوند میں اندھا کر دیا ہے لیکن کسی ایک مقام پر تو اس کو روکنا پڑے گا۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو عام لوگ جو اپنی محنت کی کمائی پر یقین رکھتے ہیں، حواس باختہ ہو جائیں گے۔ جن کے پاس ناجائز ذرائع کی کمائی ہے وہ تو جتنی چاہیں گے نمائش کر لیں گے، لیکن حکومت اول تو ناجائز کمائی پر نظر ہی نہیں رکھتی ہے، دوم کسی قسم کی پابندی اختیار کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ معاشرے کو اتھل پتھل ہونے سے روکنا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button