ColumnImtiaz Aasi

حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کا مستقبل

تحریر : امتیاز عاصی
اس سے قبل ہم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی بات کریں ۔ ایک اردو معاصر میں خبر چھپی ہے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی عمران خان سے ملاقات کا امکان نہیں جب کہ اسی اخبار میں خبر ہے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم عمران خان سے ملاقات کرکے مذاکرات کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ پی ٹی آئی کے دو بڑے مطالبات میں ایک گرفتار ورکرز کی رہائی اور دوسرا سانحہ نو مئی پر جوڈیشل کمیشن کا قیام ہے جب کہ حکومت کا مطالبہ ہے مذاکراتی ٹیم مطالبات تحریری طور پر پیش کرے۔ عجیب تماشا ہے ان مطالبات کو تحریری شکل میں دینے کی کیا منطق ہے۔ عمران خان کے وکیل فیصل چودھری کا بیان تھا عمران خان کو بنی گالا شفٹ کرنے کی پیش کش کی گئی تھی رانا ثنا اللہ کہتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ سیاست دانوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کا وتیرہ اختیار کیا ہوا ہے عوام کس کی بات پر یقین کریں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے حکومت نے پی ٹی آئی کے مطالبات پر غور کرنا ہو تو وہ پی ٹی آئی کے دونوں مطالبات پر فوری طور پر عمل کر سکتی تھی لیکن حکومت وقت گزاری سے کام لے رہی ہے۔ بعض حلقوں کے خیال میں حکومت کی طرف سے مذاکرات میں تاخیری حربوں کا مقصد نئے امریکی صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد امریکہ کے رویے سے مشروط ہے۔ غالب خیال یہ ہے حکومت اس سلسلے میں امریکہ کے دبائو کا اندازہ لگانا چاہتی ہے آیا امریکی صدر عمران خان اور اس کی جماعت کے ورکرز کی رہائی میں کس حد تک دل چسپی لیتے ہیں۔ نئے امریکی صدر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دنیا کے بہت سے ملکوں اور خصوصا پاکستان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ان غیر قانونی ہم وطنوں کی وطن واپسی کا ہو سکتا ہے جو غیر قانونی طریقوں سے کسی نہ کسی طرح امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ بآور کیا جارہا ہے صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد ان غیر ملکیوں کی امریکہ بدری کا حکم دے سکتے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جن میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ تعجب ہے حکومت پی ٹی آئی سے بات چیت کر رہی ہے اس کے بعض ارکان اسمبلی کہہ رہے ہیں وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں جو اس امر کا غماز ہے حکومت بذات خود پی ٹی آئی سے مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ہم تو کہیں گے عمران خان کو جواں مردی سے اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے البتہ پارٹی ورکرز کی رہائی کے لئے ضرور جدوجہد کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو عدلیہ سے سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف جلد ٹرائل کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔ پی ٹی آئی کو موجودہ حکومت کو اپنا وقت پور ا کرنے دینا چاہیے تاکہ اس کی کامیابیوں کا عوام کو علم ہو سکے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ابھی تک حکومت نے ملکی بنکوں سے لئے گئے قرضہ جات کو اتارنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئی لیکن حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ان غیر ملکی قرضوں کی واپسی ہے جو اسے ڈالر میں واپس کرنا ہیں۔ اس وقت ملک کی جو صورت حال اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کو سیاسی درجہ حرارت معتدل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک کئی عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے بلوچستان اور کے پی کے میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات کی روشنی میں سیاسی بحران کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ کے پی کے میں پارا چنار کے حالات سب کے سامنے ہے حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے جس ملک میں انتظامیہ کے افسران محفوظ نہ ہوں عام شہریوں کی حفاظت ممکن ہے؟ ہماری معاشی حالت کا اندازہ اسٹیٹ بنک کی شائع ہونے والی اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جس میں ہمارا ملک درآمدات کے سلسلے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خطے
کے ملکوں میں سب سے پیچھے ہے۔ حکومت اور طاقت ور حلقوں کو کسی طریقہ سے ملک سے سیاسی بحران کا خاتمہ کرنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان 26ویں آئینی ترامیم کے راستے میں رکاوٹ بننے کا کریڈٹ اپنی جماعت کو دے رہے ہیں حالانکہ انہی ترامیم کے نتیجہ میں عدلیہ کی آزادی کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ ایک اردو معاصر میں شائع ہونے والی مولانا کی پریس کانفرنس کا ہدف جہاں حکومت تھی وہاں پی ٹی آئی کے خلاف بھی پھٹ پڑے ۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کو جعلی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا اسلام آباد میں گولی چلے تو سوال اٹھتا ہے کے پی کے میں حکومت نے گولی چلائی تو کچھ نہیں؟ کے پی کے میں پی ٹی آئی کو سانحہ نو مئی کے سلسلے میں بطور انعام حکومت دینے کا بھی الزام لگایا ہے جو اس امر کا غماز ہے مولانا پی ٹی آئی سے ناخوش ہیں۔ تعجب ہے مولانا نے فرقوں کی لڑائی کو حکومت اور اداروں کا شاخسانہ قرار دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہہ دیا ہے جوڈیشل کمیشن تو تب بنایا جائے جب کسی چیز میں ابہام ہو جس کے بعد پی ٹی آئی کا جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ بے معانی ہو جاتا ہے۔ ہمارا ملک کو عجیب صورت حال کا سامنا ہے معاشی صورت حال تو خراب تھی سیاسی بحران کم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ حکومت بانی پی ٹی آئی سے سانحہ نو مئی پر معافی کا مطالبہ کر رہی ہے عمران خان سانحہ نو مئی کو خود ساختہ قرار دے رہے ہیں ایسے میں فریقین کسی معاملے پر متفق ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بظاہر حکومت امریکی حکومت کے دبائو کو کسی خطر میں نہیں لا رہی ہے تاہم اگر نو منتخب امریکی صدر کی طرف سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ آیا تو حکومت کے لئے انکار ممکن نہیں ہوگا۔ تازہ ترین سیاسی صورت حال اور حکومتی رویہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا حکومت پی ٹی آئی مذاکرات محض وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں۔

جواب دیں

Back to top button