جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( چودھواں حصہ)

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
قیدیوں کے جہاں اور بہت سے مسائل ہیں وہاں ان کی پیرول پر رہائی بڑا مسئلہ ہے۔ انگریز سرکار نے جن قیدیوں کا کنڈکٹ اچھا ہوتا انہیں پیرول پر رہائی دے دیتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنا تو لیا تاہم ان پر شدومد سے عمل درآمد کا فقدان ہے۔ عجیب تماشا ہے پیرول پر قیدیوں کو رہا کرنے کے قانون کو پس پشت ڈالتے ہوئے نئی نئی پالیسیوں کو تسلسل جاری ہے۔ مسلم لیگ نون کے دور میں جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے بے شمار قیدیوں کو رہائی دی گئی۔ عثمان بزدار کا دور آیا تو پیرول ایکٹ بنا کر قیدیوں کی رہائی عذاب بنا دی گئی۔ بھلا کابینہ کی کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی سیکرٹری داخلہ کی موجودگی میں سیاسی رہنمائوں نے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کے معاملے میں کیا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ نگران دور میں پنجاب کے وزیراطلاعات کو کمیٹی کی سربراہی سونپ دی گئی اور اب صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ پیرول قوانین میں جو قیدی ایک تہائی قیدی پوری کر چکا ہو اور اس کا چال چلن تسلی بخش ہو تو اسے پیرول پر رہائی مل سکتی ہے۔ یہاں پیرول دینے کا جو اصول طے پایا ہے جن قیدیوں کی رہائی میں چند ماہ یا ایک دو سال رہ جائیںدو چار قیدیوں کو رہائی ملتی ہے۔سوال ہے جو قیدی پندرہ برس تک جیل میں رہ چکا ہو وہ رہائی کے لئے چند ماہ مزید انتظار نہیں کر سکے گا؟ عثمان بزدار کے دور میں پیرول کے محکمہ کی تنظیم نو کی گئی جس میں ایک نیا عہدہ ڈائریکٹر جنرل کا تخلیق کیا گیا جب کہ ڈائریکٹر پہلے سے موجود تھا۔ ایک طرف سرکاری اخراجات میں کمی کا رونا روتے ہیںدوسری طرف نئی نئی اسامیاں پیدا کرکے لوگوں کو ممنون کیا جاتا ہے۔ نگران دور میں اجلاس بلایا بھی گیا تو قیدیوں کو پیرول پر رہائی نہیں دی گئی اور یہ معاملہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا گیا۔ دو جنوری کو پیرول کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلایا گیا جس میں پنجاب کی چوالیس جیلوں کے صرف سات قیدیوں کے کیس زیرغور لائے گئے جن میں سے چھ ان قیدیوں کو پیرول پر رہائی کی منظوری دی گئی جن کی رہائی میں صرف دو سال باقی تھے۔ جن چھ قیدیوں کو پیرول پر رہائی کی منظور دی گئی دو قیدیوں کا تعلق لاہور کی جیلوں سے تھا اور بقیہ قیدیوں کا تعلق پنجاب کی دوسری جیلوں سے ہے۔ محکمہ پیرول کی بیگم پورہ والی پرانی عمارت کو دوبارہ تعمیر کرکے چار منزلہ بنا دیا گیا ہے اس دوران محکمہ کو سات لاکھ ماہانہ کرایہ کی عمارت میں منتقل کیا گیا۔ باوجود اس کے نئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے پیرول کے محکمہ کے دفاتر کرایہ کی عمارت میں ہیں۔ کئی برس پہلے تک جن قیدیوں کو پیرول پر رہائی ملتی تھی ان کی قید کا دورانیہ اور چال چلن مدنظر رکھ کر رہائی دی جاتی تھی اور یہی پیرول کا قانون ہے۔ جو حکومت اقتدار میں آتی ہے اس کی قائم کردہ کابینہ کمیٹی کے اپنے رولز ہوتے ہیں۔ آج کل پیرول پر رہائی سے قبل ماہر نفسیات قیدی کا معائنہ کرتا ہے سپیشل برانچ کی رپورٹس کو دیکھا جاتا ہے۔ کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں کئی قیدیوں نی جن کی رہائی میں چھ ماہ باقی تھے پیرول پر رہا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال ہے محکمہ پیرول نے قیدیوں کو رہائی نہیں دینی ہے تو محکمہ کی کیا ضرورت ہے؟ عجیب تماشا ہے پیرول پر قیدیوں کی رہائی سے اسپیشل برانچ کی رپورٹ سے کیا لینا دینا ہے۔ گو جیلوں میں سپیشل برانچ کا کوئی نہ کوئی سب انسپکٹر عہدے کا افسر تعینات ہوتا ہے جو یومیہ اپنی رپورٹ میں جیلوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی رپورٹ کرتا ہے۔ کسی قیدی نے پیرول کے لئے درخواست دی ہو تو جیل سپرنٹنڈنٹ نے اس کے کنڈکٹ کی رپورٹ دینی ہوتی ہے نہ کہ سپیشل برانچ نے کرنا ہوتی ہے۔ چلیں ماہر نفسیات کی بات کسی حد تک درست ہے کم از کم قیدی کی ذہنی حالت بارے رپورٹ دیتا ہے۔ عثمان بزدار دور میں کنیڈا کی طرز پر پیرول پر رہائی کی تجویز زیر غور تھی اس مقصد کے لئے پنجاب حکومت نے سافٹ ویئر تیار کرایا تھا جس کے بعد قیدیوں کی کلائی پر ایک کڑا لگانے کی تجویز تھی جس سے پیرول پر رہائی ہونے والی قیدیوں کی نقل و حرکت سے محکمہ کو آگاہی ہونا تھی لیکن پی ٹی آئی دور کی وہ تمام تجویز سرد خانے کی نذر ہو گئیں۔ ایک تبدیلی یہ ضرور ہوئی ہے ایک ڈائریکٹر جنرل کی نئی اسامی تخلیق کر دی گئی ہے۔ ہونا تو چاہیے جو قیدی ایک تہائی قید پوری کر چکے ہوں اور ان کا اندرون جیل کنڈکٹ تسلی بخش ہو انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرکے ان کی مالی مدد کے لئے راہیں نکالنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کے رہائی میں زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جانی چاہئیں۔ سابقہ طریقہ کار کے مطابق جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس پیرول کا کیس بنا کر محکمہ کو بھیجا کرتے تھے یا ضلعی سطح پر تعینات پیرول افسر جیلوں میں جا کر قیدیوں کا ریکارڈ دیکھ کر جن قیدیوں کی پیرول بنتی تھی ان کے کیس تیار کئے جاتے تھے۔ حیرت ہے پنجاب کی چوالیس جیلوں میں سے صرف چھ قیدیوں کو رہائی دی گئی ہے۔ حکومت کو ایسا کرنا ہے تو انگریز کے بنائے ہوئے پیرول کے قانون میں ترمیم کر دے تاکہ قیدیوں کو پیرول پر رہائی کی امید باقی نہ رہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے احکامات پر پیرول پر رہائی کا سلسلہ شروع ہوا تھا ورنہ تو پیرول پر قیدیوں کی رہائی کسی خواب سے کم نہیں تھی۔ کابینہ کی قائم کردہ پیرول کمیٹی میں جیلوں کے آئی جی یا کوئی ڈی آئی جی شریک ہوتا ہوگا انہیں قیدیوں کے مسائل اور پیرول کے قوانین سے کمیٹی کے ارکان کو آگاہ کرنا چاہیے ۔ ایک طویل عرصے بعد صرف چھ قیدیوں کی پیرول پر رہائی قیدیوں اور پیرول کے قانون کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد یہ عالم ہے تل دھرنے کو جگہ نہیں قیدی طہارت خانوں کے قریب سوتے ہیں۔ پنجاب حکومت زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو پیرول پر رہائی دے تو جہاں ایک طرف جیلوں میں نئے آنے والے قیدیوں کے رہنے کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے دوسری طرف قومی خزانے پر مالی بوجھ کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ ( جاری)