Column

جناب عالی یہ ’’ اُوووووو‘‘ والی قوم نہیں!۔۔۔

تحریر : امجد آفتاب
گزشتہ روز ہمارے پیارے اور محنتی وزیراعظم جناب شہباز شریف صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے احتجاج کا بہترین طریقہ بتایا جو اُنہوں نے اپنے دورہ جاپان کے موقع پر دیکھا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اُس احتجاج کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
میں جاپان ہونڈا فیکٹری کا وزٹ کر رہا تھا میں وہاں سے گزر رہا تھا تو اُووووو کی آواز آئی، تھوڑا آگے گیا پھر اُوووو اووو کی آواز آئی، جب مجھ سے رہا نہ گیا تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ہنڈا کمپنی کے ورکر ’ احتجاج‘ کر رہے ہیں اور وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں احتجاج کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کر دی جاتی ہے ۔
وزیراعظم شہباز شریف صاحب واقعی ایک محنتی وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور شبانہ روز محنت سے ملک کو نا صرف ڈیفالٹ ہونے سے بچایا بلکہ پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر شہباز شریف صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ جاپان کے نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور اُن کے ملک کی قوم چاپانی قوم کی طرح صرف ’ اُوووووو‘ کر کے احتجاج ریکارڈ نہیں کرا سکتی بلکہ خون خرابہ اور توڑ پھوڑ کو ہی اصل اور کامیاب احتجاج سمجھتی ہے اور پسند کرتی ہے۔
میں وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو کہنا چاہوں گا کہ
جناب عالی! یہ وہ قوم ہے جو ملک کا پہیہ جام کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرتی ہے، جناب عالی یہ وہ قوم ہے اگر ان کو احتجاج کرنا ہو تو یہ ہسپتالوں کو بھی تالے لگا دیتے ہیں اور او پی ڈیز تک بند کر دیتے ہیں، چاہے ہسپتالوں میں آئے مریض فرش پر ہی کیوں نہ مر جائیں، بس ان کا احتجاج کامیاب ہونا چاہیے۔
جناب عالی! یہ وہ قوم ہے جو قلم چھوڑ کر احتجاج ریکارڈ کرتے ہیں اور دفتروں کو تالے لگا دیتے ہے بھلے سائلین چاہے کتنے ہی دور سے کیوں نہ آئے ہوں اور مزید کتنے ذلیل و خوار ہوں ان کو فرق نہیں پڑتا بس احتجاج کامیاب ہونا چاہیے۔ جناب عالی یہ اتنی جذباتی قوم ہے جب احتجاج کرنے پر آ جائے تو پھر یہ نہیں دیکھتے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جناب ان کو اس بات پر بھی فرق نہیں پڑتا جب یہ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں تو ایمبولینس تک کو راستہ فراہم نہیں کرتے چاہے اُس میں موجود مریض اللہ کو ہی کیوں نہ پیارے ہو جائیں۔
جناب عالی یہ وہ قوم ہے جو لالچ، ہوس اور جائیداد کی خاطر اپنے بھائیوں تک کو قتل کر دیتے ہیں، یہ وہ قوم ہے جو وراثت میں اپنی بہنوں، بیٹیوں تک کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے۔ جناب عالی آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں اور کس کو احتجاج کے طریقے بتا رہے ہیں اُس قوم کو جو کپڑوں پر عربی زبان کے عام الفاظ لکھے ہوئے دیکھیں تو اُس عورت کو مارنے پر تُل جائیں، اور یہ وہ قوم ہے جو ہاتھوں میں ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کے بینر آویزاں کئے ہوئے سرعام نافرمانی اور عُریانی کے پیغامات سرعام دینا پسند کریں اور اس پر بجائے شرمندہ ہونے کے اسے اپنی آزادی سمجھتے ہوں۔ جناب عالی یہ وہ قوم ہے جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اس معاملے میں عورتوں اور بچوں تک کو نہیں بخشا جاتا، حالیہ پارا چنار کے واقعات آپ کے سامنے ہیں۔ جناب عالی وزیراعظم صاحب آپ کس قوم کو اس طرح کے احتجاج کرنے اور مخالفین سے نبرد آزما ہونے کے پاکستانی روایتی احتجاج کو بدل کر جاپانی’’ اُوووووو‘‘ کی روایت ڈال رہے ہیں۔ جناب وزیراعظم شہباز شریف صاحب آپ کی اس معصومانہ خواہش پر سوشل میڈیا پر میمز تو بنیں گی جو یہ کام قوم بخوبی کرتی ہے مگر احتجاج کے لیے اسے نہیں اپنائے گی کیونکہ یہ قوم روایتی احتجاج کا انداز اپناتے ہوئے ڈی چوک پر دھما چوکڑی لگانے اور مہینوں تک دھرنا دینے کو ہی احتجاج سمجھتی ہے۔ مخالفین کو گالم گلوچ کرنے اُن کی خواتین بچوں کو ذلیل کرنا ہی اپنا احتجاج سمجھتی ہے اگر اس طرح سے بھی دل نہ بھرے تو یہ فوجی تنصیبات میں گُھسنے، شہیدوں کی یادگاروں کو جلانے میں دیر نہیں کرتی یہ تو اتنی احسان فراموش قوم ہے اور پتہ نہیں آپ کس ’ اُووووو‘ کو لیے پھر رہے ہیں ۔
جناب عالی وزیراعظم صاحب معذرت کیساتھ آخری بات اور آخری سوال یہ کہ اس قوم کو جاپانی طریقہ احتجاج ’ اُوووووو‘ کی بجائے پُر تشدد احتجاج کی جانب کس نے مائل کیا، ان کو کس نے لگایا؟
تو یقینا اس کا جواب آپ کو اپنی سیاسی صفوں میں ہی ملے گا۔ جب ایک سیاسی لیڈر اپنے ماننے والوں کو، اپنے فالورز کو اپنے ووٹرز، سپوٹرز کو جلا دو، گرا دو، ختم کر دو اور کفن پہن کر نکلو، کے درس دے گا تو وہ قوم کبھی مہذب طریقے سے احتجاج نہیں کر سکتی۔
جو قوم اپنی سیاسی قیادت کی محبت میں اندھی ہو، وہ مرنا مرانا ہی پسند کرے گی۔

جواب دیں

Back to top button