اوووو اوووو سے پوں پوں تک

تحریر : سیدہ عنبرین
سیانے کہتے ہیں گڑے مردے نہیں اکھاڑنے چاہئیں، ہمارے یہاں میدان سیاست میں عجب منظر ہے، زندہ حقیقت کو گاڑنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں کہ اس کے ساتھ ہی اسے اکھاڑنے کی ایک کوشش بھی نظر آئی، جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سرکار کو اپوزیشن سے جاری مذاکرات کی کامیابی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ مذاکرات کے دو رائونڈ ہو چکے تھے، جن کے بطن سے کچھ باہر نہ آیا تھا کہ ایپکس کمیٹی کا اجلاس آ گیا، سول ملٹری لیڈر اور اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ صوبہ خیبر بھی موجود تھے۔
جناب وزیراعظم نے ذکر چھیڑ دیا کہ فلاں فلاں تاریخ کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں ایسی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اگر خاموش رہتے تو اس کا مطلب اقرار ہوتا شاید یہ بات اس موقع پر اس لئے ہی کی گئی ہو۔ ان کی خاموشی کو بعد ازاں مذاکرات میں پیش کر کے کہا جا سکتا کہ ایپکس کمیٹی اجلاس میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ’’ کچھ نہیں ہوا‘‘، پس اسی خیال کے پیش نظر علی امین گنڈا پور نے آن ریکارڈ ایک مرتبہ پھر کہا کہ حقیقت سے دور کچھ نہیں ہے، ہمارے 13افراد کی شہادت ہوئی ہے، اس کا ریکارڈ سامنے آ چکا ہے، درجنوں افراد مسنگ ہیں، نہیں معلوم وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں، لہٰذا اگر ہمارے مطالبے پر 9مئی کے ساتھ ساتھ 26نومبر کے واقعات کی تحقیق کیلئے جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے تو سچ یا جھوٹ سامنے آ جائے گا۔ جناب وزیراعظم نے اگر اپنی اطلاعات اور سابق سرکاری موقف کے مطابق اپنی بات ایک مرتبہ پھر کہی ہے تو دوسری طرف سے بھی کوئی اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوا، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی اس صورت ہو سکتا ہے جب جوڈیشل کمیشن تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے گا، بصورت دیگر شیشے میں آیا بال صاف نہ ہو گا اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان فاصلے کم نہ ہوں گے، جن کا پہلے ہی امکان کم ہے، گمان ہے کہ مزید مذاکرات کے چند ادوار کے بعد ان کی ناکامی کا اعلان ہو جائے گا، خاص طور پر پہلی کڑی تو اس روز کھل جائے گی جب ایک اہم مقدمے کا فیصلہ آئے گا، سزا سنائی گئی تو اس کا مطلب کچھ اور ہو گا، ضمانت مل گئی تو مطلب واضح ہو جائے گا اور ہوا کے رخ کا تعین بھی ہو جائے گا۔ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ مقدمات بنانے والے اڈیالہ کے قیدی کو رہا کرنا چاہتے ہیں، اسے بھی شاید اس پر اعتراض نہیں، لیکن ایک فریق شکست خوردہ قیدی کی حیثیت سے اسے رہا کرنا چاہتا ہے، جبکہ وہ عدالتوں میں اپنا موقف پیش کر کے قانونی طور پر رہائی کا خواہشمند ہے، درمیان میں کہیں ایک اور پخ بھی نظر آنے لگی ہے کہ سزا بھی دو پھر معاف بھی کرو، تاکہ اسے کسی ڈیل کے تحت رہائی کہا جا سکے، تاکہ محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر آئیں۔ معاشی صورتحال اور عدم استحکام کا تقاضا ہے کہ اس بات کو یہی چھوڑ دیا جائے کہ کون فاتح اور کون مفتوح ہے، یہ اب راز نہیں رہا، لہٰذا اس پر اصرار ختم کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔
ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم اگر جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کر دیتے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں تھا ، اس موقع پر ڈپٹی وزیراعظم نے ڈنگ ٹپائو کام کرتے ہوئے کہا کہ یہ نکتہ چونکہ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہے لہٰذا اس کا فیصلہ مذاکرات میں ہو گا، گویا مذاکرات کی ناکامی کی صورت یہ تنازع تازہ رہے گا، معاملہ ایک قدم آگے بڑھنے اور دو قدم پیچھے ہٹنے کا ہی رہے گا۔9 مئی کے مجرموں پر ڈیڑھ برس بعد مقدمہ تمام ہوا، جنہیں 2برس کی سزا سنائی گئی، ان کے تحریری فیصلے ان کے ہاتھ میں تھمانے سے قبل ہی ان کی رحم کی اپیلیں بھی منظور ہو گئیں، وہ رہا ہو گئے، مزید 40، 45افراد کی رہائی بھی ممکن ہے۔ اس فیصلے میں درپردہ بہت کچھ ہے، لیکن چلئے اس میں کیڑے نکالنے کی بجائے اس نکتے پر غور کریں جو اس جذبے کے اظہار کے بعد بہت واضع ہو چکا ہے، یعنی 9مئی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کے بعد ماسٹر مائنڈ کی تلاش اور اسے سزا دینا جو ڈیڑھ برس تک نہ ہو سکا، اب تو کام سمیٹنے کا موسم نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کی شخصیت کا ایک شگفتہ
پہلو ملک بھر میں زبان زد عام ہے، انہوں نے ایک تقریب میں اپنے دورہ چین کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک فیکٹری کے دورے پر تھے کہ اچانک انہیں بلند آواز میں اوووو کی صدا سنائی دی، وہ اس پر چونکے لیکن خاموش رہے، کچھ دیر بعد یہی آواز دوبارہ سنائی دی تو انہوں نے میزبانوں سے پوچھا یہ اوووو کی آواز کیسی ہے۔ میزبانوں نے جواب دیا جناب یہ ہمارے فیکٹری میں کام کرنے والے ورکر ہیں، جو کام کرنے کے دوران اپنا احتجاج بھی کر رہے ہیں، یہ اوووو کی بلند آواز احتجاجی نعرہ ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر متاثر ہوئے کہ ورکرز نے احتجاج کے دوران اپنا کام نہیں روکا، احتجاج اور کام ساتھ ساتھ جاری ہے۔ مثال تو بہت اچھی ہے لیکن ہماری قسمت ہمارے یہاں ہر شعبہ زندگی میں کام جاری ہے، مزدور مزدوری میں لگا ہے، استاد پڑھا رہا ہے، ڈاکٹر مریضوں کو دیکھ رہا ہے، دفتروں میں کام کرنے والے اپنی جگہ مصروف ہیں، کاروباری افراد کاروبار کر رہے ہیں لیکن سب کے سب مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، 8،8مرتبہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کے بڑھنے سے اس وزن تلے دبے ہیں، یہ سب بھی کئی برس سے اوووو اوووو کی درد بھری آواز بلند کر رہے ہیں، لیکن یہ آوازیں جناب وزیراعظم تک نہیں پہنچ رہیں اور معزز وزیر خزانہ تک تو بالکل نہیں پہنچ سکتیں، اگر ان تک یہ آوازیں پہنچتیں تو پھر ہمارا بجٹ ہماری حکومت بناتی، آئی ایم ایف سے نہ بنواتی۔ اس آواز کو سننے کی ضرورت ہے، اس پر غور کرنے کا وقت ہے، ورنہ دنیا جانتی ہے وقت ایک جیسا نہیں رہتا، وقت جب بدلتا ہے تو زیر کو زبر اور زبر کو زیر کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضع طور پر فرمایا کہ ہم دنوں کو انسانوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ اپوزیشن رہنما جناب افضل شیر مروت کہتے ہیں جناب وزیراعظم آئندہ جب بھی ایوان آئیں گے تو ہم اوووو کی آوازوں سے ان کا استقبال کریں گے۔ تصور کیجئے ایسا ہوا تو ایوان میں منظر کیا ہو گا، حزب اقتدار کو سوچنا ہو گا کہ اپوزیشن ارکان جب اوووو کی صدائیں بلند کریں گے تو وہ اس کے جواب میں کیا اور کیسی آوازیں لگائیں گے، وہ ہر معاملے میں آزاد ہیں، لیکن خدارا پوں پوں کی آوازیں نہ نکالیں، دنیا کیا کہے گی۔