نان فائلرز کے گرد شکنجہ کسنے کی تیاری

تحریر : رفیع صحرائی
حکومت نے نان فائلرز کو فائلرز بنانے کے لیے سخت عملی اقدامات کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے لیے قومی اسمبلی سے جلد ہی ایک ترمیمی بل بھی پاس کروایا جائے گا جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز پر آٹھ سو سی سی سے زائد گاڑی خریدنے پر پابندی ہو گی۔ مجوزہ ترمیمی بل کے مطابق نان فائلرز مخصوص حد سے زیادہ جائیداد نہیں خرید سکیں گے۔ وہ مخصوص حد سے زیادہ شیئرز بھی نہیں خرید سکیں گے۔ ایک اہم تجویز یہ بھی ترمیمی بل میں شامل کی گئی ہے کہ نان فائلرز کے بینک اکائونٹس کھولنے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔ جبکہ ایک دوسری ترمیم کے مطابق ایک مخصوص حد سے زیادہ وہ بینکنگ ٹرانزیکشن نہیں کر سکیں گے۔ البتہ نان فائلرز کو موٹر سائیکل، رکشہ اور ٹریکٹر خریدنے کی اجازت ہو گی۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ غیر رجسٹرڈ یعنی نان فائلر کاروباری حضرات کے بنک اکائونٹس منجمد کر دیئے جائیں۔ تجویز ہے کہ نان فائلرز اپنی جائیداد ٹرانسفر نہیں کر سکیں گینیز ان کی پراپرٹی یا کاروبار کو حکومت سیل کرنے کی مجاز ہو گی۔ فائلر کے والدین اور 25سال تک کی عمر کے بچے اور بیوی فائلر تصور ہوں گے۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں سے چلتی ہیں مگر ہمارے ہاں ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ حکومتوں کو امورِ سلطنت چلانے کے لیے دوسرے ملکوں، بنکوں اور آئی ایم ایف سے بھاری سود پر قرضہ لینا پڑتا ہے۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہر حکومت ذمہ داریاں سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو عہدہ برآ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اصلاحِ احوال کی طرف کسی حکومت نے غیرمقبول ہونے کے خوف سے کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ ہر حکومت نے ہمیشہ ڈنگ ٹپائو پالیسی ہی اختیار کی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ وہ اپنی حکومت کے دوران سیاسی ساکھ کھو بیٹھے۔ سیاست بچاتے بچاتے ملک کی نائو میں بڑھتے سوراخ کو کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ضرورت کا احساس سبھی کو تھا مگر اقتدار ملکی مفاد پر غالب آتا رہا۔
موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اپنی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی ترقی اور خوشحالی کے سفر کی درست سمت پہلے دن سے ہی طے کر کے آگے بڑھنا شروع کیا ہوا ہے۔ اس کے لیے اسے بہت سے مشکل اور تلخ فیصلے بھی کرنا پڑے مگر مستقل مزاجی سے اس حکومت نے ہر قسم کی مخالفت اور مشکل کا سامنا کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں کو کامیابی سے عبور کر کے بہت سا سفر طے کر لیا ہے۔ حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے علاوہ شرح سود میں نمایاں کمی کر کے کاروباری مواقع پیدا کیے ہیں۔ سنا ہے بجلی کی قیمتوں میں بہت بڑی کمی لانے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے حکومت کو بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے کرنے پڑے تھے۔ یہ کام شوق سے نہیں کیا گیا تھا۔ مجبوری کے عالم میں یہ کڑوا گھونٹ بھرا گیا تھا۔ ناقدین اور مخالفین ہمارا حشر سری لنکا جیسا ہونے کی پیشگوئی کر چکے تھے لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ملکی کشتی کو گرداب سے نکالنے کے بعد اب عوام کو حکومت نے ریلیف دینا شروع کر دیا ہے۔ مگر سب کچھ صرف حکومت پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ عوام کو بھی ملکی استحکام اور تعمیر و ترقی میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام اپنے حصے کا ٹیکس ایمان داری سے ادا کرنا شروع کر دے۔ ہم نہ صرف پاکستان پر چڑھے قرض کو اتارنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ملک بھی تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہو جائے گا۔
نان فائلرز کو فائلرز بنا کر ٹیکس نیٹ میں لانے کی حکومتی کوششیں قابلِ داد ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹیکس دینے کا کلچر ہی نہیں ہے۔ اسے ذمہ داری کی بجائے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور مہم کے ذریعے لوگوں کے اندر ٹیکس دینے کے لیے آمادگی پیدا کرے۔
اس کام کے لیے صرف مذاکرے اور تقاریر ہی نشر نہ کی جائیں بلکہ ڈرامے، فلمیں اور ویڈیو کلپس بھی بنائے جائیں۔ تقاریر کی نسبت ان کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ بڑی بڑی مارکیٹوں کے اندر معمولی اور چھوٹی دکانیں بھی اچھی خاصی کمائی کرتی ہیں۔ تاجر تنظیموں کو اعتماد میں لے کر تمام دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کو تعریفی سرٹیفکیٹس دیئے جائیں۔ انہیں خصوصی مراعات دینے کی بھرپور تشہیر کی جائے۔ سب سے اہم کام یہ کیا جائے کہ زبانی خرید و فروخت کے عمل کو روکا جائے۔ ہر دکان دار گاہک کو پکی رسید جاری کرے۔ بڑی مارکیٹوں کے داخلی و خارجی دروازوں پر چیکنگ کا نظام ہونا چاہیے کہ بغیر پکی رسید کے کوئی سامان مارکیٹ سے باہر نہ جائے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے دکان داروں کو فائلر بنایا جائے۔ لیکن ان سب اقدامات کے ساتھ حکومت کو عوام کے ٹیکسز سے اکٹھی کی گئی رقم کو خرچ کرنے پر بھی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم رکھنا چاہیے۔ ابھی تک تو ملکی خزانے کو اندھے کی ریوڑیاں بنا کر ہی بانٹا جاتا رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے عوام ٹیکس دینا پسند نہیں کرتے۔
رفیع صحرائی