ColumnImtiaz Aasi

2024ء تلخ یادیں چھوڑ گیا

تحریر : امتیاز عاصی
اکتیس دسمبر کی شب نئے سال کی مبارک بادیں دیتے گزر گئی ۔ نہیں سوچا گزرے سال ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ سال بھر رونما ہونے والے واقعات سے دل بوجھل ہے۔ عوام مہنگائی کا واویلا کرتے رہ گئے نگرانوں نے انتخابات کیا کرائے عوام تکتے رہ گئے وہ جنہیں ووٹ دے کر آئے تھے وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ فارم 47والوں نے عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی بجائے اپنے مشاہروں میں ہوشربا اضافہ کرلیا۔ دہشت گردی ہے کہ سر اٹھانے نہیں دے رہی ہے ۔سپہ سالار کو ہر روز شہدا کے جسد خاکی کو کندھا دینا پڑ رہاہے۔ افغانستان کی جنگ میں کیا کودے ملک کا ستیاناس کر لیا ۔ اربوں کھربوں کی باڑ لگانے کے باوجود دہشت گرد تواتر سے آرہے ہیں۔ کبھی افغانستان میں یہاں سے کیا پوری دنیا سے جشن کابل میں شرکت کے لئے لوگ جایا کرتے تھے۔ فاٹا میں آپریشن سے مرحوم ملک فرید اللہ خان نے جنرل مشرف کو منع کیا فرید اللہ خان خود دہشتگردوں کا نشانہ بن گئے۔ اب بحث جاری ہے دہشت گردوں کو واپس کون لایا ہے ؟ سال گزشتہ قوم کو دو سانحات سے گزرنا پڑا ایک جو نو مئی کو پیش آیا جس میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جب کہ دوسرا وہ جس میں نہتی پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اندھیرے میں نشانہ بنایا گیا۔ بھلا کیا ضرورت تھی فائرنگ کرنے کی انہیں وارننگ دے دی جاتی ڈی چوک خالی کریں ورنہ۔۔۔ مجھے یاد ہے عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل پر کہا تھا اگر اسے گرفتار کیا گیا تو سخت ردعمل آئے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نی بھی کہا تھا اگر اسے کچھ ہوا تو ہمالیہ روئے گا۔ سوال ہے پی ٹی آئی ورکرز ڈی چوک دہشت گردی کرنے نہیں آئے تھے۔ چلیں مان لیا ڈی چوک آنے کی اجازت نہیں تھی تو اٹک کا پل کیوں عبور کرنے دیا گیا۔ ڈی پی او اٹک کی بڑھکیں نیٹ پر سنی جیسے پرندے کو پر نہیں مارنے دیں گے اسے تو کسی نے پوچھا نہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے مفت کی بدنامی اپنے ذمے لے لی ۔لوگ سانحہ ماڈل ٹائون نہیں بھولے تھے سانحہ ڈی چوک پیش آگیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے سرخیل مشاق سکھیرا کو حکومت نے سینیٹر بنوا دیا بلکہ کسی اہم کمیٹی کی سربراہی سونپی ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملوں سے ملک و قوم کی رسوائی ہوئی بیرون ملک لوگ کیا کہتے ہوں گے اپنی فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ زندگی کے اکہتر برس گزر گئے ایوب خان کا دور یاد ہے ہنگامے شروع ہوئے پولی ٹیکنک کالج کا عبدالحمید شہید ہوا تو ایوب خان پنڈی گھیپ اس کے گھر چلے گئے اس دور میں پانچ لاکھ روپے کی امداد دی۔ ریحانہ کا ترین کتنا غیرت مند تھا طلبہ نے اس کے خلاف ایوب ۔۔۔۔ ہائے ہائے کا نعرہ لگایا تو اقتدار کو لات مار دی۔ کچھ عرصہ بعد طلبہ کا ایک گروہ اسلام آباد میں ایوب خان کی رہائش گاہ جا پہنچا اور ایوب خان واپس آئو کا نعرہ لگایا تو غیرت مند ترین کھدر کا شلوار قمیض پہنچے اور پائوں میں باٹا کے سلیپر پہنے گھر کے گیٹ پر آگیا۔ فقط اتنا ہی کہا ۔۔۔۔۔۔ بوڑھا ہو چکا ہے اور واپس چلا گیا یہ ہوتی ہے غیرت مند لوگوں کی خوبی۔ پی ٹی آئی کے جیتنے ورکرز ہلاک ہوئے وزیراعظم کیا کوئی حکومتی وزیر مرنے والوں کے ورثاء کو پرسا دینے نہیں گیا۔ وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو ملزمان گرفتار نہیں ہو سکے ایک آدھ پکڑا بھی گیا تو اسے کیا ہوا ضمانت کرالی ہو گی ۔ ہمارے ہاں انسانی زندگی کی کوئی قدر و منزلت نہیں۔ یہاں تو اربوں کھربوں کے معاملات میں مبینہ طور پر ملوث لوگوں کے خلاف راہ چلتے لوگوں نے جملے کسے ان کے کانوں پر جوں نہیں رنگتی۔ عوام گزرے سال کو کیسے بھلا پائیں گے ان کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ عالمی قوتوں کا واویلا کرنے کا ہم پر کیا اثر ہے ہم تو باتیں سن سن کر کندن بن چکے ہیں۔ بلوچستان کی بات کریں تو دل خون کے آنسو روتا ہے جی وہی بلوچستان جہاں غیر ملکی سیاح صنوبر کے باغات کی خوشبو سونگھنے آیا کرتے تھے اور صوبے کی آمدن میں کتنا اضافہ ہوتا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے وہاں کی دو طالبہ خود کش بمبار بن گئی ہیں۔ سپہ سالار نے احسن اقدام اٹھا یا ہے کمانڈنگ افسر کو طلبہ سے سوال و جواب کی نشست کا انعقاد کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں، جس کا مقصد طلبہ کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دنیا ہے۔ سیاسی ماحول پر نظر ڈالیں تو سیاست دان ایک دوسرے کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ اخبارات ، ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اقتدار بڑی ظالم چیز ہے اپنے پرائے کی تمیز ختم کر دیتا ہے۔ ڈی چوک میں جو مارے گئے جو زندہ بچ گئے وہ جیلوں میں ہیں۔ جیلوں میں رہنے کو جگہ نہیں ہے۔ جس جیل میں سات سو کی گنجائش ہے وہاں دو ہزار لوگ رکھے گئے ہیں۔ عدالتیں ضمانت دیں تو رہائی کی بعد دوبارہ گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ذمہ داروں کو ضد کے خول سے نکلنا ہوگا داخلی امن ہو گا تو سرحدیں محفوظ ہوں گی۔ ستم ظرفی دیکھئے خود ہی لانے والے تھے خود ہی نالاں ہیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے حکومت کے ساتھ معتوب جماعت کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ کم ازکم گرفتار ورکرز کو رہائی دے دینی چاہیے۔ فوجی عدالتوں سے انہیں سزائیں ہو چکی ہیں ایک سال سے زیادہ انہیں پابند سلاسل ہوئے ہو چکا ہے۔ عمران خان ورکرز کی رہائی کی دہائی دے رہا ہے وہ اپنی رہائی کا طالب نہیں ہے۔ گزرے سال غزہ میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی ہر آنکھ پرنم ہے۔ دنیا میں سب سے تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود امت مسلمہ کیوں معتوب ہے ؟ ہماری عبادتوں میں فرق ہے یا حق تعالیٰ امہ سے ناراض ہیں کوئی بات تو ہے ۔ ہم سب کو اپنے قول و فعل پر نظر ثانی کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اور آخر میں ہمیں فتح مکہ کی مثال سامنے رکھنی چاہیے آقائے دو جہاںؐ نے ظلم و ستم ڈھانے والوں کو جان کی امان دے دی۔ آخر ہم سب مسلمان ہیں ایک نبیؐ کو ماننے والے ہیں۔ جو دنیا سے چلے گئے ان کی واپسی ممکن نہیں جو زندہ ہیں اپنے والدین کا سہارا ہیں۔

جواب دیں

Back to top button