ColumnImtiaz Aasi

طلبہ سے رابطوں کا ٹاسک

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
نوجوان نسل کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا آج کی نوجوان نسل کل ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گی۔ کالجوں اور یونیورسیٹوں کے طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی اداروں میںتعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو ہونا بہت ضروری ہے ورنہ طلبہ کابے راہ روہی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ایک دور میں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونیز کابہت شورغوغا تھا خصوصا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں طلبہ یونیز اپنے عروج پر تھیں۔ پنجاب میں اسلامی جمیعت طلبہ اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن بہت زیادہ سرگرم تھیں بعدازاں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی ان کے ساتھ آملیں۔حقیقت میں دیکھا جائے تو سٹوڈنٹس یونیز سیاسی رہنماوں کی نرسیاں تھیں جو کئی عشروں سے بند ہو چکی ہیں۔عام طور پرپنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی یونیز برسراقتدار رہتی تھی ۔مخدوم جاوید ہاشمی، فرید پراچہ،راولپنڈی کے گارڈن کالج میں شیخ رشید ،راجا انور جیسے کئی طلبہ رہنما یونیز کی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔ نہ جانے کون سی وجوہات تھیں جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونیز پر پابندی عائد کر دی حالانکہ وہ بھٹو حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اس کے باوجود انہیں طلبہ یونیز سے خدشات تھے جن کے پیش نظر طلبہ یونیز پر پابندی لگانا پڑی۔طلبہ یونیز کے زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کے طلبہ کی سرگرمیاں زوروں پر تھیں ۔طلبہ کے بس دو ہی نعرے تھے سرخ ہے سرخ ہے ایشیاء سرخ ہے سبز ہے سبز ہے ایشیاء سبز ہے۔ ایوب خان کے خلاف طلبہ نے تحریک کا آغاز کیا تو طلبہ نے سرکاری املاک کو بالخصوص جی ٹی ایس کی بسوں اور بنکوں کو جلانا شروع کر دیا جس کے نتیجہ عوام کچھ عرصہ بعد سرکاری بسوں کی سہولت سے محروم ہو نا پڑا۔کئی عشرے گزرنے کے باوجود طلبہ یونیز پر پابندی تو نہیں اٹھ سکی البتہ پاک فوج کے سپہ سالار جناب سید عاصم منیر نے چاروں صوبوں میں تعنیات کمانڈنگ آفیسروں کو ہدایت کی ہے وہ یونیورسیٹوں میں طلبہ کے ساتھ سوال وجوابات کی نشست کریں تاکہ نوجوان بچوں کے ذہنوں میں جو سوالات آئیں ان کا جواب دیا جا سکے۔درحقیقت آرمی چیف کا طلبہ سے گفت وشنید کا کمانڈنگ افسروں کو ٹاسک اس لئے بھی دنیاپڑا بلوچستان کی کچھ طالبات کا خودکش بمبار بننے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ طلبہ کے ساتھ ایک نشست میںبلوچستان کے کورکمانڈر نے طلبہ کوتمام حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا دہشت گرد تنظیمیں کس طرح نوجوان طلبہ کو اپنے جال میں پھنساتی ہیں۔ کور کمانڈر اور طلبہ کے درمیان سوال وجوابات میں کمانڈنگ آفیسر نے طلبہ کو تبایا کوئی دہشت گرد تنظیم انہیں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرے تو انہیں فوری طور پر ان سے رابطہ قائم کرنا چاہیے جو نہ صرف انہیں بلکہ ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کریں گے۔بلوچستان میں دہشت گردسرگرم ہیںایسے میں وہاں کے نوجوانوں کو حالات سے باخبر کرنے کی بہت ضرورت ہے ا آرمی چیف نے کمانڈنگ افسروں کو طلبہ سے روابط رکھنے کا جو ٹاسک دیا ہے وہ عین ملکی مفاد میں ہے۔ملک دشمن عناصر بلوچستان کے طلبہ کو اپنے ٹریپ میں اس طرح بھی پھنسا لیتے ہیں صوبے میں بے روز گاری عروج پر ہے ۔پہلی بات بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں تعلیمی سہولتوں کو فقدان ہے بے روز گار نوجوانوں کو دہشت گردوں کے لئے اپنے مذموم مقاصد کے لئے اپنے جال میں پھنسانا اس لئے بھی آسان ہے جب کسی کو کھانے کو نہیں ملے گا اور روزگار کی عدم دستیابی ہو گی تو لازمی بات ہے نوجوان اپنے لئے کچھ نہ کچھ کمانے کی خاطر ان کو بہکاوے میں آسکتے ہیں۔ ہم تو کہیں ہے افواج پاکستان کے ذمہ داروں کو یونیورسٹیوں کے علاوہ طلبہ سے روابط رکھنے کے ٹاسک کے دائرہ کار کو کالجوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔صرف بلوچستان نہیں کے پی کے ،سندھ ،پنجاب ،جی بی اور اسی طرح آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ سے سوال وجوابات کی نشست کا تسلسل جاری رہنا چاہیے۔سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو بعض سیاسی جماعتوں نے نوجوان نسل پر دارومدار کیا ہوا ہے وہ جب چاہیں نوجوانوں کو جلسوں اور دھرنوں کیلئے لے آتے ہیں۔ اگر طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے اور انہیں سیروتفریح کے مواقع فراہم کئے جائیں تو یہ بات یقینی ہے کالجوں اور یونیورسیٹوں کے طلبہ دہشت گرد تیظیم ہو یا کوئی سیاسی جماعت کوئی انہیں ٹریپ نہیں کر سکے گا۔ہمارے خیال میں حکومت کو طلبہ تنظیموں پر پابندی اٹھا لینی چاہے اور انہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے طلبہ یونیز کے انتخابات کے انعقاد کی اجازت ہونی چاہیے۔ہمیں یاد ہے کالج کے زمانے میں طلبہ یونیز کے عہدے دار ویک اینڈ پر بسوں کا اہتمام کرکے طلبہ کو تفریح مقامات پر لے جایا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں طلبہ کو غیر ضروری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی طرف دھیان نہیں ہوتا تھا۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی کے اثرات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بلوچستان اور کے پی کے میں طلبہ تنظیمیں سرگرم ہوتیں تو شائد بلوچستان کی طالبات کو دہشت گرد تنظیمیں ٹریپ نہیں کر سکتی تھیں۔اب وقت آگیا ہے تعلیم اداروں خصوصا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ یونیز کی سطح پر سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے البتہ طلبہ تنظیموں کو کسی سیاسی جماعت کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تاکہ کسی موقع پر ان کا جھکائو کسی سیاسی جماعت کی طرف ظاہر نہ ہو سکے۔طلبہ یونیز بحالی کی صورت میں انہیں ایک محدود دائرئے میں رہتے ہوئے کالجوں اور یونیورسیٹوں کے احاطوں میں اظہار خیال کی آزادی ہونی چاہیے۔حقیقت میں حکومت کو طلبہ یونیز پر پابندی لگانی تھی انہیں سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں بن کرسرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی نہ کہ طلبہ یونیز پر پابندی لگا دی جاتی۔ سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کی سرپرستی سے حالات خراب ہوتے ہیں۔ ہم ماضی میں لوٹیں تو طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ارکان کئی موقعوں پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ احتجاج کے دوران مارے گئے۔ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے تو یہ بات یقینی ہے انہیں کوئی ٹریپ نہیں کر سکتا۔ ریاست کو تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے ۔بہرکیف عہد حاضرمیں طلبہ کے ذہنوں میں جنم لینے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے طلبہ کے ساتھ بات چیت کی نشست وقت کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button