ColumnImtiaz Aasi

جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( بارہواں حصہ)

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پنجاب کی حکومت نے حال ہی میں قیدیوں کو ضلعی جیلوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن معمولی معمولی باتوں پر جیل کے ہیڈ وارڈرز یا اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس قیدیوں کے نام ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس ایگزیکٹو کو دور دراز جیلوں میں شفٹ کرنے کے لئے دے دیتے ہیں جو قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ تعجب ہے جیلوں میں قیدیوں کو سزائیں دینے کے لئے قصوری بلاک ہوتے ہوئے انہیں دوسری جیلوں میں بھیجنے میں کیا منطق ہے۔ بعض جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس بد نظمی کے مرتکب قیدیوں کو مستقل طور پر قصوری بلاک میں بند کر دیتے ہیں جو قیدیوں کے ضلعی جیلوں سے دور دراز جیلوں میں بھیجنے سے بہتر ہے لہذا ان قیدیوں کا چالان بھیجنے میں کوئی ہرج نہیں جو جیلوں میں ہنگامہ آرائی کا باعث بنتے ہیں۔ عجیب تماشا ہے قیدیوں کا ہسٹری کارڈ ایک اہم دستاویز ہوتی ہے جو جیل ملازمین کی تحویل میں ہونا چاہیے لیکن قیدیوں کے ہسٹری کارڈ جیلوں میں قیدی منشیوں کے پاس ہوتے ہیں جو انہیں اپنے ساتھ بیرکس میں رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہسٹری کارڈ قیدی منشی کے پاس رکھنے سے سیکرسی نہیں رہ سکتی بلکہ قیدیوں کو اپنے ہسٹری کارڈ سے متعلق تمام معلومات ہوتی ہیں ۔ جیلوں میں اصلاحات کے ساتھ مبینہ کرپشن کا خاتمہ بھی بہت ضروری ہے اس مقصد کے لئے جب کوئی نئے حوالاتی جیل آئیں اور ایک مقدمہ میں ایک سے زیادہ لوگ ملوث ہوں تو انہیں ایک ہی بیرک میں رکھنے سے کم از کم یہ کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ ہوتا یہ ہے جب ایک مقدمہ میں ایک سے زیادہ لوگ جیل آجائیں تو انہیں پہلے روز سے علیحدہ علیحدہ بیرکس میں رکھا جاتا ہے جس کے بعد حوالاتی ایک ہی بیرکس میں رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو انہیں اس مقصد کے لئے بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔ گو جیلوں میں مبینہ کرپشن کے کئی طریقے رائج ہیں اگر ایک مقدمہ میں ملوث قیدیوں کو یکجا رکھا جائے تو گنتی اکٹھی کرنے جو رشوت دینا پڑتی ہے کم از کم اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ جیل مینوئل میں منشیات کے مقدمات میں آنے والوں کی اڑتی کا کوئی تصور نہیں ہے مگر منشیات کے مقدمہ میں ملوث حوالایتوں کو ہر روز اپنا بستر اٹھا کر دوسری بیرک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے حوالاتی اگر نذرانہ دے دیں تو انہیں اسی بیرک میں رکھا جاتا ہے بلکہ کوئی عذر پیش کرکے ان کی اڑتی رک جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم اس سے قبل کالم میں لکھ چکے ہیں جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز بنانے کے بعد قیدیوں سے حسب ضرورت سامان لکھنے کا طریقہ کار وہی ہے البتہ اب مینوئل کی بجائے سامان کمپیوٹر کے ذریعے لکھا جاتا ہے جس کے بعد پی پی اکائونٹ سے قیدی کی جمع شدہ رقم سے مطلوبہ رقم منہا کر لی جاتی ہے۔ کئی برس قبل قیدیوں کو آئی جی جیل خانہ جات پرویز رحیم راجپوت جن کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان سے تھا نے قیدیوں کو پرائیویٹ کمبل اور گھڑی رکھنے کی اجازت دے دی تھی لیکن بعض جیلوں میں قیدیوں کو گھڑی اور کمبل نہیں رکھنے دیئے جاتے ہیں جو قیدیوں سے زیادتی ہے۔ ایک عام شکایت یہ ہے علیل قیدیوں اور حوالاتیوں کی بجائے جو لوگ دھوکہ دہی اور نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مبینہ فراڈ کے مقدمات میں جیلوں میں آتے ہیں نذرانہ دے کر جیل ہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں لہذا اس کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ایسے قیدیوں کو کسی بیماری کی صورت میں تو جیل ہسپتال رکھا جاتا سکتا ہے لیکن نذرانہ دے کر ہسپتال داخلے کی ممانعت ہونی چاہیے۔ یہ کام اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کے علاوہ ریجن کے ڈی آئی جی اور آئی جی جیل خانہ جات جیلوں کے اچانک دورے کریں تو انہیں حالات سے آگاہی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ جیلوں کے ہسپتالوں کی ذمہ داری پنجاب کے محکمہ صحت کے حوالے کر دی گئی ہے تاہم میڈیکل آفیسر انتظامی طورپر تو جیل سپرنٹنڈنٹس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جیلوں میں متعین میڈیکل آفیسروں کو حقیقی معنوں میں بیمار قیدیوں کو جیل سے باہر سرکاری ہسپتالوں میں شفٹ کرنا چاہیے۔ ہمارے مشاہدات کے مطابق جیلوں کی میڈیکل افسر جب کسی سفارشی قیدی کو جیل سے باہر ہسپتال بھیجنا ہو تو باہر سے آنے والے ڈاکٹروں سے رائے لینے کے بعد قیدیوں کو جیل سے باہر ہسپتال بھیجنے کی سفارش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم اگر جیل ملازمین کی بات نہ کریں تو بہت زیادتی ہو گی۔ شائد محکمہ جیل خانہ جات پنجاب ملک کا واحد محکمہ ہے جہاں نچلے ملازمین کو اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس کے عہدے پر ترقی دیتے وقت ان پہلے سکیل میں عارضی طور پر ترقی دی جاتی ہے جسے انگریزی میں own his pay scaleحالانکہ کہ جب کسی ملازم کو ترقی دی جائے تو اگر اس کا سروس ریکارڈ تسلی بخش ہو اور سالانہ خفیہ رپورٹس ٹھیک ہوں تو انہیں ریگولر بنیادوں پر ترقی دینی چاہیے۔ یہاں تو باوا آدم نرالا ہے اپنے پے سکیل میں عارضی ترقی دینے کے بعد انہیں کوسوں میل دور جیلوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اللہ کے بندوں اگر کسی کو ترقی دینی ہے تو باقاعدہ اگلے سکیل میں سروس ریکارڈ دیکھ کر دی جائے۔ دراصل محکمہ جیل خانہ جات میں شائد ملازمین کی سالانہ خفیہ رپورٹس لکھنے کا روج کم ہے ورنہ اگر سالانہ رپورٹس مکمل ہوں تو انہیں ریگولر بنیادوں پر ترقی دے کر انہیں ترقی کی خوشی ہوسکتی ہے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس سے سپرنٹنڈنٹس کے عہدوں پر ترقی دینے کے لئے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں ترقیاتی بورڈ ترقی دیتا ہوگا اس لئے ان افسروں کا سروس ریکارڈ پوری طرح مکمل نہیں ہوتا۔ اگر جیل سپرنٹنڈنٹ کو کئی سال بعد گریڈ اٹھارہ میں باقاعدہ سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر اس لئے ترقی مل سکی ہے اس کا سروس ریکارڈ یعنی اے سی آر مکمل نہیں تھیں۔ جیلوں ملازمین کی ڈیوٹی کے اوقات کار پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے، بیرکس انچارج صبح چھ بجے جیلوں میں داخل ہوتے ہیں تو رات نو بجے تک سب اچھا کرتے رہتے ہیں، انہیں گھر جاتے جاتے رات دس بج جاتے ہیں۔ آئی جی جیل خانہ جات کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ ( جاری)

جواب دیں

Back to top button