ColumnImtiaz Aasi

پی ٹی آئی پر سانحات کے منفی اثرات

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
کوئی مانے نہ مانے سانحہ ڈی چوک نے پی ٹی آئی پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، رہی سہی کسر سانحہ نو مئی کے ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزائوں نے نکال دی ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزایاب ہونے والوں کو ابھی ایک اور دریا عبور کرنا ہے ۔ کم از کم فوجی تحویل میں انہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا قید بامشقت کے بعد جیلوں کے لنگر خانوں اور فیکٹریوں میں انہیں مشقت کرنی پڑے گی جو قیدی کے لئے کسی اذیت سے کم نہیں۔ جیل منتقلی کے اگلے روز سپرنٹنڈنٹس کے ملاحظہ میں انہیں پیش کرکے پہلے میڈیکل آفیسر نے ان کا طبعی معائنہ کیا ہوگا جو ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے جس کے بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو نے ان کی مشقت ہسٹری کارڈ پر تحریر کی ہوگی، آخر میں سپرنٹنڈنٹ ہسٹری کارڈ پر حتمی دستخط کر دیئے ہوں گے۔ حقیقت میں پی ٹی آئی رہنمائوں میں باہمی رابطوں کی فقدان نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سنگ جانی میں جلسہ ہو جاتا نہ پی ٹی آئی ورکرز اور نہ ہی سیکیورٹی اہل کار جانے گنواتے ۔ بانی پی ٹی آئی کے جیل میں رہنے سے پی ٹی آئی کے حصے بخرے کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے البتہ حکومت پی ٹی آئی کو محاذ آرائی کی سیاست سے دور رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے تارکین وطن کو ترسیلات زر بھیجنے سے روکنے کی کال موخر کی ہے تاہم یہ بات ذہین نشین رہنی چاہیے تارکین وطن پیسے وزیراعظم شہباز شریف کو نہیں اپنے اہل و عیال کو بھیجتے ہیں۔ عمران خان سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے تو شائد انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں دیکھا جائے تو حکومت کا پلہ بھاری ہے پہلے حکومت مذاکرات کی خواہاں تھی بانی پی ٹی آئی مذاکرات طاقتور حلقوں سے کرنے کے خواہاں تھے۔ عمران خان کا خیال تھا پی ٹی آئی ورکر ڈی چوک پہنچ کر مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیںگے بدقسمتی سے ڈی چوک میں پیش آنے والے سانحہ نے پی ٹی آئی ورکرز کے حوصلے پست کر دیئے۔ ہم ماضی کی طرف جھانکیں تو بانی پی ٹی آئی نے دو صوبوں میں حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مشکلات میں ازخود اضافہ کیا ہے۔ ان کا خیال تھا حکومت فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر دے گی مگر ایسا نہیں ہو سکا نگران حکومت کی طوالت کے دوران فارم 47کی منصوبہ بندی کر لی گی۔ حکومت نے انتخابی عذرداریوں کی شنوائی کے لئے جو ٹربیونل قائم کئے ہیں ان میں بعض حضرات کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے جس کے پیش نظر پی ٹی آئی کو ادھر سے بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عجیب تماشا ہے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی حکومتی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا تھا جن ملزمان کی سزائیں پوری ہو چکی ہیں ان کا فیصلہ فوجی عدالت کر دے حالانکہ سانحہ نو مئی کو گزارے قریبا ڈیڑھ سال ہوا ہے ملزمان کو دس دس سال قید سنا دی گئی ہے لہذا ان کی سزائیں آئندہ پانچ سالوں میں ختم نہیں ہو سکیں گی۔ تعجب ہے دو بڑے سانحات وقوعہ پذیر ہوئے حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ حکومت پی ٹی آئی کے مذاکرات کا پہلا دور ہو ا جس کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ تک دوسرے دور کو ملتوی کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ فوجی عدالتوں سے ملزمان کو سزائیں ہو چکی ہیں جو رہ گئے ہیں انہیں جلد یا بادیر سزائیں ہوں گی۔ جہاں تک جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات ہے حکومت نے انتخابی عذرداریوں کی شنوائی کے لئے جیسے ٹربیونل قائم کئے ہیں اسی سطح کے کسی سابق جج کو جوڈیشل کمیشن کا سربراہ بنا بھی دیا تو کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزائوں کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں نے چھپ سادھ لی ہے جب کہ اس کے برعکس یورپی یونین نے ان سزائوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو بین الاقوامی معاہدے سے متصادم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں پاکستان کو یورپی ملکوں سے تجارتی امور میں مشکلات پیش آسکتی ہیں جو ایک کمزور معاشی ملک کے لئے قابل برداشت نہیں ہوگا۔ سچ تو یہ ہے حکومت کو سانحہ ڈی چوک پر جوڈیشل کمیشن کسی راست باز سابق یا حاضر سروس جج کی سربراہی میں قائم کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق گولی چلانے کا حکم وزیراعظم نے دیا تھا جوڈیشل کمیشن قائم ہوا تو وزیراعظم کو بھی پیش ہونا پڑ سکتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا ورکر ہو یا سیکورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے اہل کار ہوں ان کی اموات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات سے آزاد عدلیہ کا خواب پورا ہو سکتا ہے ورنہ عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے ملک میں نہ کوئی آئین ہے اور نہ قانون ہے۔ وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ نے واضح طور پر کہا ہے پی ٹی آئی سے مذاکرات کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے حکومت بانی پی ٹی آئی سمیت کسی رہنما کو رہا کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں حکومت پی ٹی آئی مذاکرات بے سود ہوں گے اور ملک میں سیاسی اور معاشی بحران برقرار رہے گا۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کسی سیاسی جماعت اور اس کے رہنمائوں کے خلاف لاتعداد مقدمات قائم کئے گئے ہیں جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا بعض حلقے عوامی خواہشات کے برعکس سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی کنجی دینے کی روایت برقرار رکھیں گے۔ ہمارے خیال میں بانی پی ٹی آئی کو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے خصوصا انہیں اپنے خلاف مقدمات سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو کسی ہمالیہ کو سر کرنے سے کم نہیں ہوگا۔ ہم یہ نہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا بانی پی ٹی آئی کو بندوں کی پہچان نہیں، ہر کسی پر اعتماد نے انہیں اس مقام پر پہنچایا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو اپنی جماعت کو ان لوگوں سے نجات دلانی ہو گی جو وکٹ کے دونوں اطراف کھیلتے ہیں۔ بہرکیف پی ٹی آئی کو سانحہ ڈی چوک کے اثرات سے نکلنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button