Column

مشرق وسطیٰ میں جنگ

تحریر : رانا اقبال حسن
سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے شروع جنگ کے شعلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ فلسطین اور لبنان کے بعد شام پر بھی اسرائیلی فضائیہ کی مہلک ضربیں جاری ہیں۔ شام جو کچھ دن پہلے تک مڈل ایسٹ کی ایک اچھی خاصی طاقت تھی اور ایران کا ایک اہم ترین اتحادی جس کے زمینی دستہ کے ذریعہ ایران حزب اللہ کو ہتھیار اور تربیت فراہم کرتا تھا ۔ اور اسکے بدلے حزب اللہ اور ایران بشار الاسد کو شامی باغیوں کے مقابلے میں بھرپور اعانت فراہم کرتے تھے۔ وہاں پر ترکی، اسرائیل اور امریکہ کی شہ پر باغیوں نے اسد فیملی کے نصف صدی کے جابرانہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ اسد کو بچانے کے لئے نہ تو ایران آگے آ پایا اور نہ ہی حزب اللہ جس کی طاقت جو اسرائیل پہلے ہی تباہ کر چکا تھا۔ اس لئے نیتن یاہو نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر کھڑے ہو کر بڑھک ماری کہ بشار الاسد کو اقتدار سے باہر کرنے میں حزب اللہ اور ایران کو اسرائیل کی طرف سے پہنچائی جانے والی شدید ضربیں تھیں جس سے باغیوں کو ایک آسان فتح مل گئی۔ حتی کہ بشار الاسد کے حالات نے اتنا برا پلٹا کھایا کہ روس بھی یوکرین جنگ میں پھنسا اس کو نہیں بچا سکا۔ جوں جوں باغی دمشق کے طرف مارچ کرتے رہے بشار الاسد کی افواج ہوا میں تحلیل ہوتی گئیں۔ بیرونی سہاروں کی عدم موجودگی میں ڈکٹیٹر چند دن بھی نہیں نکال پایا ۔
اگرچہ ایک جابرانہ اقتدار کے خاتمہ پر کئی دھڑوں نے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے مگر شام کی صورتحال انتہائی خراب تر ہونے کا اندیشہ ہے۔ شام کو مشرق وسطی کا ایک پرتو کہا جاتا ہے۔ یہاں نسلی تقسیم ہے اور سب سے بڑھ کر مسلکی تقسیم ہے۔ شام میں کافی گہری شیعہ اور سنی تقسیم ہے اور جہاں پہلے سنی اکثریت کو دبایا گیا تھا اب شیعوں اور علویوں کے خلاف تشدد کا خطرہ ہے۔ شام میں مختلف نسلی گروہ جیسے کرد، عیسائی اور دروز بھی موجود ہیں جو اپنے لیے زمین کے طلبگار ہیں۔ دروز کمیونٹی جو پرو اسرائیل سمجھی جاتی ہے اس نے گولان اور دوسرے ملحقہ ایریاز میں اپنے لئے ایک علیحدہ سر زمین کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اسرائیل شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کر کے ایران کی طاقت مشرق وسطیٰ میں کمزور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر مشرق وسطیٰ کا یہ خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے ۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا مشرق وسطیٰ میں بھڑکتی آگ کے شعلے بجھ جائیں گے یا ابھی امریکہ اور اسرائیل مشرق وسطیٰ کی ازسر نو تشکیل کے لئے اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھیں گے۔ اب اسرائیل کے لئے یمن اور ایران اگلے دو ممکنہ ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ یمن میں ہوتیوں کی طاقت ختم کرنے کے لئے اسرائیل نے صومالی لینڈ میں اڈے حاصل کرنے کا ایک مبینہ معاہدہ کیا ہے جہاں سے وہ یمن کو بآسانی نشانہ بنا۔ کتا ہے اور ایران میں رجیم کی تبدیلی کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور ایران کو نیوکلئیر بم سے باز رکھنے کے لئے اسرائیل کسی حد تک جا سکتا ہے۔ اس طرح سعودی عرب کو سات اکتوبر سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے والا تھا وہ اب دوبارہ اسرائیل کے ساتھ یو اے ای کی طرز پر کوئی معاہدہ کر سکتا ہے، اس کے لئے سعودی عرب اسرائیل سے غزہ میں جاری قتل و غارت ختم کروا سکتا ہے، جس کا اس کو کریڈٹ بھی مل سکتا ہے۔ شاید ٹرمپ یہ بھی چاہے گا کہ سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے بعد کچھ اور اہم اسلامی ممالک، جیسے پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کسی لیول پر قائم کریں۔ بہرحال اسرائیل نے امریکی شہ پر اپنی بے رحم فوجی طاقت کے زور پر مسلم مما لک کو بہت کچھ سوچنے پر اور اپنی پالیسیاں ازسر نو تشکیل دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب ایرانی اسٹیبلشمنٹ بھی یہ سوچتی ہو گی کہ یحییٰ سنوار کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے نے اس کی طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ اور عرب دنیا میں اس کے شیعہ اتحادی سخت مشکل کا شکار ہو چکے ہیں۔ سات اکتوبر کے حملے نے اسرائیل کو اپنے مخالفین کے خلاف اپنی بے رحمانہ طاقت استعمال کرنے کا جواز پیدا کر دیا اور دنیا بھر میں اس کی مذمت کے باوجود آج بھی امریکہ اس کی پشت پر کھڑا ہے ۔

جواب دیں

Back to top button