Column

میر کارواں

تحریر : صفدر علی حیدری
یاد پڑتا ہے کہ نہم جماعت میں تھے جب مطالعہ پاکستان میں قائد اعظمؒ کا یہ فرمان پڑھا تھا ’’ پاکستان اس دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کے پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا ‘‘۔
یہ سدا بہار جملہ آج بھی کل جیسی جاذبیت رکھتا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کے بانی تھے، انہوں نے اپنی زندگی کے 42سال اس کے لئے جدوجہد کی۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب تھے۔ دراصل انہوں نے وہ کر دکھا یا جو کہ عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسے لوگ اپنے کردار کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ بیسویں صدی کے پہلے نصف کے بہت بڑے قانون ساز تھے ۔ آپ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر، ایک عظیم آئین پسند، ممتاز پارلیمنٹیرین ، ایک اعلیٰ درجے کے سیاست دان، متحرک مسلمان رہنما اور جدید زمانے کے سب سے بڑے قوم ساز تھے ۔ تاہم جو بات انہیں ممتاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے قائدین نے پہلے سے روایتی طور پر موجود اقوام کی قیادت سنبھالی اور ان کے مقاصد کو آگے بڑھایا اور انہیں آزادی کی طرف لے کر گئے۔ جبکہ قائد اعظمؒ نے ایک پسی ہوئی اور متفرق اقلیت کو اکٹھا کیا اور بیدار کیا اور ایک دہائی کے اندر قوم کو تہذیب و ثقافت کے مطابق وطن فراہم کیا ۔ سر سید کے بارے کہیں پڑھا تھا کہ وہ برے لوگوں سے بھی اپنی مرضی کا کام لے لیتے تھے ۔ قائد اعظمؒ میں یہ صلاحیت شاید ان سے بھی بڑھ کر تھی۔ برصغیر پاک و ہند کی آزادی سے قبل آپ نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی ۔ وہ واحد ممتاز مسلمان سیاستدان تھے اس لئے انہوں نے قوم کی رہنمائی کی، ہندوستان کے مسلمانوں کے خوابوں کو زبان دی، ان کو ہم آہنگ کیا، واضح سمت عطا کی اور ٹھوس مطالبات کی شکل میں پیش کیا۔ اور سب سے بڑھ کر انہوں نے پوری کوشش کی کہ وہ جو بھی کریں ہندوستان کی آبادی کے غالب طبقہ ، برطانوی حکمرانوں اور ہندوں کی رضامندی سے کریں۔ تیس سال سے زیادہ عرصے تک انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور ایک معزز طرز زندگی کے لئے بھرپور کوشش کی ۔ درحقیقت ان کی سوانح حیات برصغیر کے مسلمانوں کی نشاۃالثانیہ اور بطور قوم شاندار ظہور کی کہانی ہے۔ ہندوستان کی آزادی اور ہندوستانیوں کے حقوق کے لئے سب سے طاقتور آواز جانے تھے۔ مسٹر مونٹیگو (1879۔1924 ) نے ہندوستان کے سیکریٹری برائے ریاست کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جناحؒ کے بارے میں کہا ’’ وہ ایک خوش کنونشن کی طرف سے مسلم مطالبات کو قبول کرنے سے انکار نے ہندو مسلم اتحاد کو تباہ کن دھچکا پہنچایا اور جناحؒ کی محنت کو ضائع کر دیا، یہ موقع مسلمانوں کے لئے آخری تنکا ثابت ہوا اور جناحؒ کے لئے ’’ راستے جدا کرنے‘‘ کا باعث بنا۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے اس وقت اپنے ایک پارسی دوست سے کیا تھا۔ برصغیر کی سیاست سے مایوس ہونے کے بعد تیس کی دہائی کے اوائل میں ہجرت کرکے لندن چلے گئے، تاہم وہ اپنے ہم مذہب ساتھیوں کی التجا پر 1934ء میں ہندوستان واپس آئے اور ان کی قیادت سنبھالی۔ لیکن اس وقت کے مسلمان مرد و خواتین سیاسی طور پر غیر منظم ہونے کی وجہ سے مایوسی اور بے بسی کا شکار تھے۔ جناحؒ کے سامنے جو ہدف تھا وہ اتنا آسان نہ تھا۔ مسلم لیگ غیر فعال تھی اور اس کی صوبائی تنظیمیں بھی زیادہ تر غیر موثر اور صرف رسمی طور پر مرکزی تنظیم کے ماتحتتھیں۔ مرکزی ادارہ جو جناحؒ نے منظم کیا تھا اس کی بمبئی کے اجلاس (1936) تک اس کی کوئی مربوط پالیسی نہیں تھی۔ صوبائی سیاست نے بھی مایوس کن منظر نامہ پیش کیا ۔ پنجاب، بنگال، سندھ، نارتھ ویسٹ فرنٹیئر، آسام، بہار اور متحدہ صوبوں میں، مختلف مسلم رہنمائوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی اپنی صوبائی جماعتیں تشکیل دیتھیں۔ جناحؒ کے لئے اس وقت ڈھارس کا باعث شاعر و مفکر علامہ اقبالؒ (1877۔1938) کی شخصیت تھی جنہوں نے پس منظر میں رہ کر ہندوستانی سیاست میں اپنا راستہ بنانے میں ان کو مدد فراہم کی۔ اس مایوس کن صورتحال کے باوجود جناحؒ نے ایک پلیٹ فارم پر مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ انہوں نے ملک گیر دوروں کا آغاز کیا اور صوبائی مسلم رہنمائوں سے التجا کی کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور لیگ میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے مسلم عوام کو اپنے آپ کو منظم کرنے اور لیگ میں شامل ہونے کی تلقین کی۔ انہوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کے حوالے سے مسلمانوں کے سیاسی جذبات کو ہم آہنگ کیا اور واضح سمت فراہم کی۔ انہوں نے اس بات کی حمایت کی کہ فیڈرل سکیم کو ختم کرنا چاہئے کیونکہ یہ ہندوستان کی خود مختار حکومت کے مقصد کے منافی ہے جبکہ صوبائی سکیم ، جس نے پہلی بار صوبائی خودمختاری کے حق کو قبول کیا تھا۔ تمام تر نامساعد حالت کے باوجود مسلم لیگ نے 1937ء کے انتخابات میں کل 485مسلم نشستوں میں سے 108( تقریبا 23فیصد) نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ یہ بہت متاثر کن کارکردگی نہیں تھی ، لیکن لیگ کی اس جزوی کامیابی نے اس حقیقت کے پیش نظر مزید اہمیت اختیار کر لی کہ لیگ نے سب سے زیادہ مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ کہ ملک میں مسلمانوں کی وہ واحد ملک گیر جماعت تھی ۔ چنانچہ انتخابات برصغیر کے نقشے پر مسلم ہندوستان کو بنانے کے لئے پہلے سنگ میل ثابت ہوئے ۔ 1937ء میں اقتدار میں آنے والی کانگریس نے جدید ہندوستان کی تاریخ پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ کانگریس نے جولائی، 1937ء میں گیارہ میں سے سات صوبوں میں اقتدار سنبھالا۔ کانگریس کے اقتدار اور پالیسی نے مسلمانوں کو اس بات پر قائل کیا کہ کانگریس کی سکیموں میں وہ صرف ہندوئوں کے رحم و کرم پر اور اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے ایک پالیسی بنائی تھی اور ایک ایسا پروگرام شروع کیا تھا جس سے مسلمانوں کو ان کا مذہب، زبان اور ثقافت غیر محفوظ محسوس ہونے لگے۔ جناحؒ نے اس جارحانہ کانگریس پالیسی کے ردعمل کے طور پر مسلمانوں کو ایک نئے شعور کے لئے بیدار کرنے ان کو آل انڈیا پلیٹ فارم پر منظم کرنے اور ان کو محاسبہ کرنے کی طاقت بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ان کی خواہشات اور آرزوئوں کو ہم آہنگی، سمت اور لب و لہجہ دیا۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے لوگوں میں خود اعتمادی پیدا کی۔ جناحؒ کی بھرپور کوششوں سے مسلمان بیدار ہوئے۔ قائداعظمؒ نے ہمیشہ واضح الفاظ میں دعویٰ کیا ’’ ہم ایک قوم ہیں۔ ہم اپنی مخصوص ثقافت اور تہذیب، زبان و ادب، آرٹ اور فن تعمیر، نامور اقدار کے احساس کی حامل ایک قوم ہیں۔ قوانین اور اخلاقی ضابطہ ، تاریخ اور کیلنڈر، رسم و رواج اور روایت ، قابلیت اور عزائم ، مختصر یہ کہ زندگی اور زندگی کے بارے میں ہمارا اپنا مخصوص نظریہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ، ہم ایک قوم ہیں‘‘۔ 1940ء میں لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں آپؒ نے پاکستان کا مطالبہ واشگاف الفاظ میں کیا۔ اس وقت لوگوں نے سے دیوانے کا خواب کہا مگر صرف سات سال کے بعد وہ خواب حقیقت بن کر سامنے آیا اور یوں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اگرچہ جناحؒ بہت تھک چکے تھے اور ان کی صحت بھی خراب تھی، انہوں نے پہلے سال میں قوم کی تعمیر کے بوجھ کا سب سے بھاری حصہ خود اٹھایا۔ انہوں نے نئی ریاست کی پالیسیاں مرتب کیں، قوم کو درپیش فوری مسائل کی طرف توجہ دلائی اور دستور ساز اسمبلی کے ممبران، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو بتایا کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں ۔ پاکستان کے عوام آج بھی اپنے محسن کے گن گاتے ہیں لیکن ان کی جیب میں پڑے کھوٹے سکوں اور ان کی باقیات نے پاکستان کو جس مقام پر پہنچایا ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ قائد کا پاکستان نہیں ہے۔ ایک جمہوری آدمی کی جمہوری جدوجہد کا حاصل یہ آمرانہ پاکستان کبھی نہیں ہو سکتا۔ آج وہ زندہ ہوتے تو انہیں پاکستان بنانے کا دکھ ہوتا۔ وہ بجا طور پر فرماتے کہ لاکھوں جانوں کی قربانی انہوں نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ اس ملک پر مارشل لاء نافذ رہے یا stick holdersکا قبضہ۔
آخر میں یہ بتاتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میرے دادا سردار کریم بخش حیدری قائد اعظمؒ کا شمار ان کے قریبی رفقاء میں ہوتا ہے ۔ اس ملک کو بنانے میں ہمارے آباء و اجداد کی قربانیاں بھی شامل ہیں مگر افسوس پاکستان ویسا نہ بن سکا جیسا ہمارے قائد اور بزرگان نے اس کے بارے سوچا تھا۔ آج پاکستان کی یہ ابتر حالت ہے تو وجہ وہ محسن کشی ہے جو کھوٹے سکوں نے کی ہے۔ جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button