جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( گیارہوں حصہ)

تحریر : امتیاز عاصی
قیدیوں کے مسائل کے ساتھ بعض انتظامی معاملات حکومت اور جیل اصلاحاتی کمیٹی کے علم میں لانا بہت ضروری ہیں۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار کے پیش نظر صوبے میں نئی جیلوں کی اشد ضرورت ہے۔ کسی جگہ نئی کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا تو اراضی کا حصول سیاست کی نذر ہو گیا۔ پنجاب حکومت کے منصوبے کے مطابق مری، چینوٹ اور تحصیل تلہ گنگ اور دیگر شہروں میں جیلوں کی تعمیر کے منصوبے زیر غور ہیں البتہ راولپنڈی میں ڈسٹرکٹ جیل کی تعمیر جاری ہے۔ سینٹرل جیل راولپنڈی کے اندر واقع ہائی سیکورٹی جیل والی جگہ پر ڈسٹرکٹ جیل کی تعمیر تیزی سے ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ زیر تعمیر بیرکس کو نئی جیل کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ ہائی سیکیورٹی جیل کی راولپنڈی میں اس لئے بھی ضرورت نہیں پنجاب حکومت نے ساہیوال اور میانوانی میں ہائی سیکیورٹی جیلیں بنا دی ہیں۔ اسی حوالے سے ہماری ملاقات ڈی آئی جی جیل خانہ جات راولپنڈی ریجن رانا عبدالرئوف سے ہوئی ان کے مطابق صوبائی حکومت نئی جیلوں کی تعمیر کے منصوبوں پر بڑی تیزی سے کام کر رہی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا راولپنڈی جیسے بڑے ضلع کی سنٹرل جیل میں وفاقی دارالحکومت سے آنے والے کئی سو قیدی رکھنے سے جیل میں نئے آنے والے حوالاتیوں کے رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اسلام آباد میں نئی
جیل کی تعمیر کے منصوبے پر کام تیزی سے کر رہی ہے جس کے بعد توقع کی جا سکتی ہے آئندہ سال کے وسط تک اسلام آباد سے راولپنڈی جیل لائے جانے والے قیدیوں اور حوالاتیوں کو اسلام آباد کی نئی جیل میں رکھا جائے گا۔ ایک دلیر جیلر کی شہرت رکھنے والے رانا عبدالرئوف نے ایک سوال کے جواب میں بتایا قیدیوں کو یوٹیلیٹی سٹورز سے معیاری اشیاء کی فراہمی جاری ہے، جو قیدیوں کے لئے بڑی سہولت ہے ۔ ہمارے خیال میں یوٹیلیٹی سٹورز کھلنے سے کنٹین کنٹریکٹروں کے چنگل سے قیدیوں کو آزادی مل گئی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق کنٹین کنٹریکٹر قیدیوں کو اشیاء ضرورت اس لئے بھی مہنگے داموں فراہم کیا کرتے تھے انہیں جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس اور دیگر کئی افسران کے گھروں میں ماہانہ بنیادوں پر مفت راشن فراہم کرنا ہوتا تھا۔ یوٹیلیٹی سٹورز کھلنے کے بعد مفت راشن کی فراہمی کا سلسلہ رک گیا ہے۔ ایک اردو معاصر میں سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیوں کی خبر پڑھ کر حیرت ہوئی جس میں ایک حوالاتی کا حوالہ دیا گیا ہے جب اس نے جیل میں ہونے والی بے قاعدگیوں بارے جیل کے پی سی
او سے آئی جی جیل خانہ جات کی ہیلپ لائن پر شکایت کی تو بجائے اس کی شکایت پر انکوائری کرنے کے اسے قصوری چکیpunishment block میں بند کر دیا گیا۔ جن بدعنوانیوں کی طرف حوالاتی نے توجہ دلائی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں قریبا ہر جیل میں اس طرح کی مبینہ بے قاعدگیاں معمول کی بات ہے البتہ ایک سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے جس طرح کا ماحول بنایا ہوا ہے اس نے جیلوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں تعیناتی کے دوران جیل میں قیدیوں نے جو ہنگامہ آرائی اور گھیرائو جلائو کیا جیلوں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ گجرات جیل کے سانحہ کے بعد پانچ برس تک انہیں کسی جیل میں تعینات نہیں کیا گیا۔ حکومت پنجاب کو نہ جانے ان کی کون سی ادا پسند آئی ہے جو انہیں سینٹرل جیل میں لگا دیا ہے۔ عام طور پر جیلوں میں متعین سپیشل برانچ کے افسر جیلوں میں ہونے والی بدعنوانیوں کی رپورٹ اپنی روزمرہ کی ڈی ایس آر میں کر دیتے ہیں جس کی نقل کمشنر، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور چیف سیکرٹری کو بھیجی جاتی ہے جس پر لازمی طور پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ جیلوں میں معمول کے مطابق ملازمین کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو بدل دیا جاتا ہے راولپنڈی سنٹرل جیل میں ملازمین ایک ہی مقام پر کئی کئی ماہ سے لگے ہیں۔ حوالاتی نے شکایت کی ہے ایک جیل ملازم رکشے میں باہر سے سامان لا کر جیل کے اندر فروخت کرتا ہے جو تحقیق طلب ہے۔ خبر میں فیکٹری میں مشقت نہ کرنے والے قیدیوں سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ سب اچھا وصول کرنے کی شکایت کی گئی ہے ہماری معلومات کے مطابق سب اچھا پانچ ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک جیل ملازم نے ہمیں بتایا جیل کے دورہ کے دوران کوئی خلاف قاعدہ چیز نوٹس میں آئے تو جیل سپرنٹنڈنٹ ایسے ملازمین کو شوکاز نوٹس دیتے ہیں جس کے بعد مبینہ طور پر سب اچھا ( یعنی رشوت) لینے کے بعد نوٹس اظہار وجوہ کو داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔ حوالاتی نے ایک الزام یہ بھی لگایا ہے بااثر قیدیوں کو کوکنگ کے لئے ہارٹ پلیٹ، جوسر اور دیگر غیرقانونی مراعات حاصل ہیں۔ یوں تو جیل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی فہرست طویل ہے ہم صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ
نورالامین مینگل سے درخواست کریں گے وہ سنٹرل جیل راولپنڈی میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیوں کی رپورٹ سپیشل برانچ سے حاصل کرکے ڈی آئی جی طارق محمود بابر جیسے کسی راست باز افسر کو جیل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی انکوائری پر مامور کریں۔ اگر قیدی کی طرف سے لگائے گئے الزامات درست ثابت ہوں تو سپرنٹنڈنٹ جیل کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ جیل اصلاحاتی کمیٹی سے بھی ہم درخواست کریں گے جیلوں میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں کے انسداد کے لئے عملی طور پر اقدامات کے لئے تجاویز دیں تاکہ جیلوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا مکمل خاتمہ تو ممکن نہیں کم از کم مبینہ کرپشن میں کمی لائی جا سکے۔ شکایات گزار حوالاتی نے ایک اہم بات کی طرف توجہ بھی دلائی ہے جس میں سی کلاس کے قیدیوں کو بی کلاس کی سہولتوں کی فراہمی کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے ۔وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری کو سنٹرل جیل راولپنڈی میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے لئے اچانک کوئی ٹیم بھیجنی چاہیے تاکہ کرپشن میں ملوث جیل ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ ( جاری)