Column

خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ فضائل و مناقب کے آئینے میں

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
اللہ رب العزت جل جلالہ نے کائنات کی تخلیق فرمائی، اس میں زمین و آسمان بنائے ۔ زمین کو پُر کرنے کے لئے انسان کو پیدا کیا، انسان کی رشد و ہدایت کے لئے انبیا کرام ٌ مبعوث کئے۔ یہ سلسلہ حکمت الٰہی کے تحت چلتا رہا یہاں تک کہ سبحان ذی العرش العظیم نے محمدؐ رسول اللہ کو خاتم النبیینؐ بنا کر مبعوث فرمایا۔ اور پھر لوگوں کی ہدایت کے لئے قرآن کریم نازل کیا۔ نبی کریمؐ کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ اصحاب النبیؐ کی جانب منتقل ہوا۔
نبی کریمؐ کے پردہ فرمانے کے بعد اسلام دشمنوں نے یہ سمجھا کہ اب دین اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن حضور نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایسی تربیت کی تھی کہ آپؐ کو یقین تھا کہ میرے بعد ہمیشہ دین اسلام کو پھیلاتے رہیں گے۔ چنانچہ جب خلیفہ بلا فصل امام الصحاب سیدنا ابو بکر صدیقؓ مسندِ خلافت پر جلوہ گر ہوئے تو انہوں نے حضورؐ کی بے مثال محبت اور سچی نیابت کا حق ادا کر دیا۔ آپ کو افضل البشر بعد الانبیاء کا بلند مقام عطا ہوا۔ آپ حضور سرور کائناتؐ کی بے انتہا محبت و الفت اور اطاعت و فرمانبرداری کے باعث صدیقیت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ صحابہ کرامؓ میں آپؓ کا درجہ و مقام بہت ہی بلند والا ہے۔
آپؓ بچپن ہی سے بہت سی خصوصیات و کمالات کے حامل تھے۔ آپؓ نے بچپن اور جوانی انتہائی پاکدامنی اور نیک نامی سے ساتھ گزاری۔ زمانہ طفلی سے ہی شرک سے بیزار تھے اور بتوں سے نفرت کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپؓ کے والد آپؓ کو بت کدے میں لے گئے۔ آپؓ کے والد نے کہا کہ یہ تمہارے بلند و بالا خدا ہیں، انہیں سجدہ کرو۔
آپؓ نے بتوں کو مخاطب کرکے فرمایا: میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائو، میں ننگا ہوں مجھے لباس پہنائو۔ بت تو پتھر کا ہوتا ہے، بھلا وہ کیسے جواب دیتا؟۔ جب آپؓ نے کوئی جواب نہ پایا تو ایک پتھر اٹھاکر فرمایا: میں تجھے مارنے والا ہوں ، اگر قدرت رکھتا ہے تو خود کو بچا لے۔ وہ تو بت تھا کھڑا رہا، آپؓ نے اسے پتھر دے مارا۔ جوانی کے دور میں بھی جب جاہلیت کا زمانہ تھا، آپؓ نے کبھی شراب نوشی نہیں کی، اور دیگر برائیوں سے بھی محفوظ رہے۔ آپؓ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، آپؓ کا اسلام میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ مزید برآں اللہ رب العزت نے آپؓ کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ آپؓ کی چار پشتیں شرف صحابیت سے بہرہ یاب ہوئیں۔ آپؓ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے جس کو یہ فضیلت حاصل ہو کہ اس کے والدین بھی صحابیؓ ہوں، خود بھی صحابیؓ ہوں، اولاد بھی صحابیؓ اور پوتے بھی صحابیؓ ہوں۔ یعنی آپؓ کی چار پشتیں شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں۔ آپؓ کو غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ تبوک ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبر، فتح مکہ سمیت تقریباً تمام غزوات میں حضور نبی اکرمؐ کی ہمراہی کا شرف حاصل رہا۔
آپؓ ایک نیک سیرت انسان تھے۔ آپؓ اسلام کے اولین مبلغ تھے کیونکہ آپؓ نے ہی نبی کریمؐ کے بعد دعوت اسلام کا کام شروع کیا۔ آپؓ کی کوششوں اور ترغیب سے حضر ت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ جیسے اکابر صحابہؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان پانچ اصحابؓ کا تعلق اس مقدس جماعت سے ہے جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہؓ میں افضل اور سب سے بڑے عالم تھے۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا :’’ میرے بعد سوال پوچھنا ہوتو ابو بکر سے پوچھو‘‘۔ ( بخاری، ص ۵۲۸)۔ صحابہ کرامؓ جب کسی مشکل مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہوجاتے تو آپؓ سے اس کا حل دریافت کر لیتے تھے اور پھر جب آپؓ کے جواب پر خوب غور و بحث کرتے تو واضح ہوجا تا کہ آپؓ کا جواب ہی درست اور صحیح ہے اور آپؓ کے فیصلے کے مطابق ہی عمل پیرا ہوتے تھے۔ آپؓ کو فن تعبیر میں بھی کمال حاصل تھا۔ عہدِ رسالت میں آپؓ خواب کی تعبیر بتایا کرتے تھے۔ حضرت سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے خواب کی تعبیر ابو بکرؓ سے پوچھ لیا کروں کیوں کہ انہیں تعبیر خواب میں کمال حاصل ہے۔ ( ابن عساکر)۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہؓ میں نہایت اعلیٰ گفتار و کردار کے مالک تھے۔ عقل کامل کے حامل اور صاحب الرائے تسلیم کیے جاتے تھے۔ عبد اللہ بن عمر و بن العاصؓ نے فرمایا کہ میں نے خود رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ جبریلٌ نے آکر مجھ سے کہا: اللہ تعالیٰ آپؐ کو حکم دیتا ہے کہ آپؐ ابوبکر سے مشورے کرتے رہیے‘‘۔ ( سبل الھدیٰ والرشاد)۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مشورے کو بالاتفاق تسلیم کیا جاتا تھا۔ آپؓ کی رائے کو حتمی رائے سمجھا جاتا تھا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کہ آپؓ کوئی خطا کریں۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کو یہ گوارا نہیں ہے کہ ابو بکرؓ کوئی بھی غلطی کریں۔ ( معجم الکبیر)۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر تھے۔ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے لوگوں سے سوال کیا: مجھے یہ بتائو کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ۔ آپؓ۔ اس پر خود فرمایا: ’’ لیکن میں تو اپنے مد مقابل سے لڑتا ہوں ۔ بلکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سب سے زیادہ بہادر ہیں‘‘۔ ( الریاض النضرۃ) آپؓ نے مانعینِ زکوٰ ۃ کے خلاف تلوار اٹھائی، نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا استیصال کیا، مرتدوں اور باغیوں کا سر کچلا۔ آپؓ کی ذکاوت ، بصیرت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بے مثال تھی۔ جب آپؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپؓ کے سامنے بغاوت، اسلام دشمنی کا پہاڑ کھڑا تھا۔ لیکن آپؓ نے ہر بغاوت اور اسلام دشمن قوتوں کا بھر پور استیصال کیا اور مجاہدین کو گروہوں کی صورت میں مختلف مہمات پر روانہ کرکے اسلام کا پرچم سر بلند رکھا۔
آپؓ تمام صحابہؓ میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’ ابوبکر صدیقؓ کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا ہے، اتنا کسی اور کی دولت نے نہیں دیا‘‘۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے روتے ہوئے عرض کیا: ’’ یا رسولؐ اللہ میں اور میرا تمام مال سب آپؐ ہی کا ہے‘‘۔ ( مسند احمد)۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپؓ نے سخاوت کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں مل سکتی۔ آپ ؓ نے اپنے گھر کا سارا مال لاکر آقا کریمؐ کے قدموں میں رکھ دیا تھا اور اپنے گھروالوں کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔ حضور نبی اکرمؐ کے پوچھنے پر بتایا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں۔ آپؓ کی طرز سخاوت کی تعریف کرتے ہوئے رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ ابو بکرؓ سے بڑھ کر کوئی بھی میرا ( ظاہری) معاون و مددگار نہیں، ( اظہارِ نبوت کے بعد) سب سے زیادہ یہ کہ مال و جان سے میری غم خواری کی اور اپنی صاحبزادی میری زوجیت میں دی‘‘۔ ( ابن عساکر)۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شان کا عالم یہ ہے کہ حضور نبی اکرمؐ کے ساتھ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں ، رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ اے ابوبکرؓ! میری امت میں سب سے پہلے جنت میں آپ جائیں گے‘‘۔ ( ابودائود )۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ جنت میں ایک ایسا شخص داخل ہو گا، جس سے ہر گھر والے اور ہر بالاخانے والے کہیں گے: مرحبا مرحبا، ہمارے پاس آئیں، ہمارے پاس آئیں‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا: ’’ یا رسولؐ اللہ یہ شخص کتنا کامیاب اور سرخرو ہوگا! آپؐ نے فرمایا: ’’ کیوں نہیں، اور وہ تم ہو گے، اے ابو بکرؓ۔ ( صحیح ابن حبان )
حضرت ابو بکر صدیقؓ سی محبت عین ایمان ہے اور آپؓ سے بغض و عداوت رکھنا کفر ہے۔ ایک روایت میں حضرت انسؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں: ابو بکرؓ و عمرؓ سے محبت رکھنا ایمان، اور ان سے بغض و عداوت رکھنا کفر ہے۔ ( ابن عساکر) حضرت انس بن مالکؓہ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ میری امت پر ابو بکرؓ سے محبت و الفت اور ان کا شکر ادا کرنا واجب ہے‘‘۔ ( ابن عساکر)۔ آپؓ کی زندگی کا ہر گوشہ اپنی انفرادیت کا حامل تھا۔ آپؓ کے مختصر اندازِ خلافت و سیاست میں بھی کامیابی کے عظیم اصول پوشیدہ ہیں۔ سرور دو عالم حضور نبی کریمؐ کی تدفین سے فارغ ہونے کی بعد دوسرے روز مسجد میں بیعت عامہ ہوئی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منبر پر بیٹھ کر ان الفاظ میں اپنے طرز عمل کی توضیح فرمائی: ’’ اے لوگو! مجھے آپ لوگوں کا امیر و والی بنایا گیا ہے، حالانکہ میں آپ لوگوں سے بہتر نہیں۔ اگر میں بہتر کام کروں تو میری مدد کرو اور اگر کہیں غلطی کروں تو میری اصلاح کرو۔ سچ بولنا امانت ہے اور جھوٹ بولنا خیانت۔ تم میں سے کوئی شخص کتنا ہی کمزور ہو لیکن جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد سے میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں وہ میرے سامنے بہت طاقتور ہے اور تم میں سے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور ہو اور اس نے کسی کا حق دینا ہوتو اس سے حق لینے تک وہ میرے نزدیک بہت کمزور ہے۔ جہاد چھوڑ دینے والی قوم پر اللہ تعالیٰ ذلت مسلط کر دیتا ہے اور بے حیا قوم پر مصائب نازل فرماتا ہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتا رہوں تم میری اطاعت کرتے رہنا اور جب میں ان کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت واجب نہیں۔ اب اٹھو اور نما ز پڑھو، اللہ تعالیٰ آپ سب لوگوں پر رحم فرمائے‘‘۔
اس مختصر تقریر کا بغور جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ خلافت و سیاست اور حاکمیت کا مقصد صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد کوئی طویل تقریر نہیں کی ، بلکہ ایک مختصر اور جامع خطبہ کے ذریعہ نظام حکومت بیان فرما دیا جو ہر حاکم اور سیاستدان کے لئے مشعل ِ راہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے امت کی قیادت کے لئے اپنے بنیادی اصولوں کا اعلان فرمایا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سیاست کا ایسا فارمولا پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکر کوئی بھی سیاستدان یا حکمران ناکام نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر محمد ریاض علیمی

جواب دیں

Back to top button