Column

وہ جاگتی آنکھوں میں نیند گھولتا ہے

شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
کہتے ہیں نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ یقیناً ایسا ہے بھی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر دن کے بعد رات آتی ہے اور رات میرے رب نے سکون کے لیے پیدا کی ہے۔ یہ دیگر بات کہ کسی کو سو سکون ملتا ہے کسی کو جاگ کر۔ کسی کو چہل قدمی میں تو کسی کے سجدے میں ۔
مولا متقیان علیؓ کا فرمان یاد آیا: ’’ دن کو رزق تلاش کرو اور رات کو اسے جو رزق دیتا ہے ‘‘۔
کہتے ہیں جناب ختمی مرتبت کے لیے چھ نمازیں فرض تھیں اور چھٹی نماز تہجد کی تھی، جو رات کے تیسرے حصے میں ادا کی جاتی ہے۔ میرے نبیؐ کی خلوت کی یہ نماز میرے رب کو بڑی پسند تھی مگر رات رات بھر جاگنا مناسب معلوم نہ ہوتا تھا۔ ظاہر ہے انسان خود کو اتنی مشقت میں ڈالے جتنا اس کا نفس برداشت کر سکے۔
سو سورۃ مزمل میں تاکید کی گئی کہ رات کے کچھ حصے میں جاگا کیجیے ۔
’’ اے کپڑوں میں لپٹنے والے! رات کو اٹھا کیجیے مگر کم ، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے یا اس پر کچھ بڑھا دیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجیے ‘‘۔
افسوس ہمیں جھوٹے قصے سنائے جاتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی تھی ۔ ظاہر یہ بات سچ نہیں ہو سکتی۔ بشری طاقت سے باہر کی چیز ہے اور خلاف فطرت بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسنون بھی نہیں ہے اور ہمارے نبی کی سنت بھی نہیں ہے۔ ہمیں اگر رب کی رضا چاہیے تو وہ پیروی رسولؐ میں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے رہبانیت کو ناپسند فرمایا کہ وہ خلاف فطرت ہے ۔ اپنے کچھ ساتھیوں کو آپ نے دیکھا کہ انھوں کے ساری رات جاگنے، ہر روز روزہ رکھنے اور بیویوں کے پاس نہ جانے کا اعلان کیا تھا تو انھیں پاس بلا کر اور یہ کہہ کر منع فرمایا کہ تمہارے جسموں کا بھی تم پر حق۔ پھر اپنی مثال دی کہ میں رات کو جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ اور بیویوں کے پاس بھی جاتا ہوں۔ اور میں تم میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کا ڈر رکھتا ہوں۔
اب اگر چالیس سال والی بات کرامت ہے تو پھر کرامات تو خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہ بندے کا ذاتی فعل ہے نہ اس پر اس کی تحسین کرنا بنتا ہے۔
مومن تو بلکہ یہ دعا کرتا دکھائی پڑتا ہے کہ اے اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تم نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔
کیوں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی قوت اور استعداد سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا ‘‘۔
کتاب ہدایت میں رہبانیت کو ان کا ذاتی فعل قرار دینے ہوئے کہا گیا کہ انھوں نے یہ طریقہ خود سے اختیار تھا ۔ مقصود رب کی رضا تھا مگر وہ اس پر عمل پیرا نہ ہو سکے ۔ اور اپنے طے کردہ طریقوں پر پورا نہ اتر سکے ۔ ظاہر ہے وہ طریقہ فطرت انسانی سے متصادم تھا ۔
’’ عیسیٰ بن مریمٌ کو بھیجا اور انہیں ہم نے انجیل دی اور جنہوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا اور رہبانیت ( ترک دنیا) کو تو انہوں نے خود ایجاد کیا، ہم نے تو ان پر رہبانیت کو واجب نہیں کیا تھا سوائے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے، لیکن انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی‘‘۔
یہ کیسی اور کہاں کی دانش ہے انسان برداشت سے بڑھ کر بوجھ اپنے کندھے پر لاد لے۔ جب کہ دوسری طرف وہ دعا بھی مانگتا ہو کہ اس پر برادشت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالا جائے۔
یاد پڑتا ہے کہ میں جب کبھی اسکول نہیں جاتا تھا تو رات کو جاگتا اور نیند کی دیوی سے لڑتا رہتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ صبح متوقع مار سے ڈر لگتا تھا۔ استاد کسی جلاد کی طرح سزا دیتے تھے۔ ہم سبق یاد کرتے، ذمیہ کام لکھتے پھر بھی ہر استاد سے پٹتے۔ اگر طالب علم ہونہار ہوتا تو اس کی خیر نہیں ہوتی تھی کہ اس کے لیے کوئی معافی نہ تھی ۔ سو میں رات رات بھر جاگتا رہتا تھا ۔ لیکن آنکھ لگ ہی جایا کرتی تھی۔ ( یہ خوف بعد میں کئی بار نفسیاتی عوارض کا سبب بنا ) یہ تب کا دور تھا جب والدین اساتذہ کو کہا دیا کرتے تھے ’’ ہڈیاں ہماری چمڑی آپ کی ‘‘ گویا وہ ہمیں آدھا آدھا بانٹ لیا کرتے تھے ۔ یہ ’’ مار نہیں، پیار ‘‘ کا دور نہیں تھا۔
یہ دور تھا مار، نہیں پیار
تو نیند تب بھی آ جاتی تھی
اقبالؒ یاد آئے
کس قدر گراں تم پہ صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
چوتھے پارے کی پہلی آیت کا مفہوم ہے:’’ تم نیند کا مزہ چکھ نہیں سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز ہم پر قربان نہ کر دو ‘‘۔
میرے ایک دوست کہا کرتے ہیں ، وہ پیاری چیز نیند ہی تو ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر جزوی پور پر۔ ہر وہ چیز جس سے انسان کو پیار ہو، جب تک وہ قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نیکی کی حلاوت کو محسوس نہیں کر سکتا۔ دنیا کے کے مذہب میں صبح دیر سے جاگنے کو پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ حتی کہ کسی دین کو نہ ماننے والے لوگ بھی سحری خیزی کے حق میں رطب اللسان ہیں۔ اب اگر کسی نے صبح جلدی جاگنا ہو تو اسے رات جو جلدی سونا پڑے گا۔
آپ نے صبح کی سیر والے مضمون میں یہ ضرور پڑھا ہو گا کہ ” Early to bed early to rise , makes a man hiealthy , wealthy and wise ”
بہت سے لوگ نیند کی کمی ، کم خوابی اور صبح فریش نہ اٹھنے پر شاکی دکھائی دیتے ہیں تو وجہ یہی ہے کہ وہ رات کو جلد نہیں سوتے۔ رات سے دیر کو سونا ان تینوں باتوں پر منتج ہوتا ہے ۔ اب ایسا انسان صبح کی سیر بھی تو نہیں کر سکتا۔ صبح کی سیر رات کی چہل قدمی سے ہزار درجے بہتر ہے۔
میں خود بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو صبح اٹھتے ہیں تو خود کو تازہ دم محسوس نہیں کرتے اور یوں ان کا سارا دن عجیب طرح کی اکتاہٹ اور بے زاری میں گزرتا ہے ۔
آج میں اس کا آپ کو حل بتاتا ہوں جس پر عمل کرنے سے میری بے زاری سرشاری میں بدل گئی۔
آپ رات کو چہل قدمی کرنے اور عشاء کی نماز پڑھ سو جایا کیجیے۔ گویا آٹھ بجے آپ کو سو جانا چاہیے۔ پھر آپ کی آنکھ رات کو دو ڈھائی بجے کھلے گی ۔ آپ کو بالکل تازہ دم محسوس کریں گے۔ اب تہجد پڑھیے، اپنے رب سے سجدے میں جا کر راز و نیاز کی باتیں کیجیے۔ اس سے مناجات کیجیے کہ یہی وقت ہے اس کی تلاش کا جو رزق دیتا ہے ۔ صبح کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھیے اور صبح کی سیر کے لیے نکل جائیے ۔ آپ کا سارا دن سکون سے گزرے گا ۔ ایک احتیاط ضروری ہے اور وہ یہ کہ رات رات کو پانی نہیں پینا ۔ اگر پینا بھی پڑ جائے تو معمولی مقدار میں ورنہ آپ کی جاگ ہو جائے گی ۔ جن زیادہ پیشاب کی شکایت ہے ، ان کے لیے تو ناگزیر ہے کہ وہ پانی نہ پئیں۔
میں ڈیڑھ بجے اٹھ جاتا ہوں۔ اب یہ وقت میرے کالم اور افسانے لکھنے کا ہے اور پڑھنے کا ، پیپر چیک کرنے کا۔
رات کو جلدی سو جانے سے آپ کے پاس تہجد پڑھنے ، ذکر اذکار کرنے اور صبح کی سیر کا وقت ہو گا۔ اور یہ چیز آپ کی جسمانی، روحانی اور ذہنی مضبوطی کا باعث ہو گی۔ ان شاء اللہ
اب آخر میں محسن نقوی کا ایک شعر
اسی سے مانگ لو خیرات اس کے خوابوں کی
وہ جاگتی آنکھوں میں نیند گھولتا ہے

جواب دیں

Back to top button