کیا ریاستیں ایسے چلتی ہیں!

عبدالحنان راجہ
ارکان پنجاب اسمبلی نے اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھا کر عوامی خدمت کے جذبے کا عملی ثبوت پیش کر دیا اب ایک بار پھر عوام کی باری کہ وہ جذبہ حب الوطنی کے تحت کب اور کتنی قربانی پیش کرتے ہیں۔ یہ تو سبھی کو معلوم کہ اراکین کے لیے مالی آسودگی اور ذہنی سکون کے بغیر عوامی ’’ خدمت‘‘ کا کٹھن فریضہ کیونکر ممکن۔ یہ اضافہ یقیناً عوام کے اس یقین کو مزید پختہ کرے گا کہ معزز ارکان صوبے کے مجبور، مقہور اور غریب عوام کے لیے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ عوام کو سمجھ ہی نہیں کہ اراکین اسمبلی انتخابات میں کروڑوں اسی جذبہ خدمت کے تحت ہی تو لگاتے اور لٹاتے ہیں۔ ویسے بھی سرکاری وسائل پر حاصل کردہ توانائی کا مزا ہی الگ۔ ہم تو اب اس سلوگن کے قائل، کہ ممبران توانا تو پنجاب توانا۔ اس میں خوش آئند یہ کہ بہت مدت بعد حکومت و اپوزیشن میں باہمی اتفاق کا وہ مظاہرہ دیکھنے کو ملا کہ قوم جس کی مدتوں سے منتظر۔ اب اگر عوام میں یہ یگانگت نہیں تو اس میں بے چارے حکومتی و اپوزیشن ارکان اسمبلی کا کیا قصور۔ اب جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے غربت کے خاتمہ کے لیے 33کروڑ ڈالر قرض بھی منظور کر دیا تو ظاہر ہے کہ قرض کی یہ رقم اللے تللے میں تو لٹائی نہیں جا سکتی تھی۔ سو اسے حق داروں تک پہنچانے کا انتظام پنجاب اسمبلی نے اگر کر ہی لیا ہے تو جاہل عوام کو چیں بجبیں ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کے ذمہ ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت آئی ایم ایف وغیرہ کے قرض چکانا ہی واجب ہیں سو انہی مزید دلجمعی سے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سیکڑوں لاشوں کے شوشے کے بعد پختونوں کو مشتعل کرنے کی ناکام کوشش نے ملک کو لسانی تفریق سے تو بچا لیا۔ بدنصیبی کارکنوں کی اس سے بڑی اور کیا کہ وہ ابھی تک لاشوں کے انتظار میں.۔ ایک جان کا ضیاع انہیں شاید قبول نہیں کہ جس کو سابق خاتون اول نے کے پی حکومت کے خزانے سے ایک کروڑ کا چیک عطا فرمایا۔ سیکڑوں والے اب دوسری لاش بھی سامنے لا نہ سکے مگر قومی و عالمی سطح اور سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں جو زہر گھولا گیا اس کا کیا ہو گا۔ حکومت تو ہے پی بانجھ کہ وہ تو کچھ کرنے سے رہی مگر ریاستی ادارے بھی شاید قوانین پہ قوانین بنوانے تک ہی محدود۔ کس مہذب ملک میں بدترین ڈیجیٹل دہشتگردی اور کھلم کھلا بیرونی طاقتوں اور اداروں کو ملک میں مداخلت کی دعوت کی اجازت ہے؟۔ یہ تو بھلا ہو عالمی برادری کا کہ جو دنیا بھر میں بہنے والے خون مسلم کو پانی سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہے کہ وہ اگر پاکستان میں سیکڑوں لاشوں کے پراپپگنڈا پر ایکشن لے لیتے تو !!! یہ درست کہ گزشتہ کئی برسوں سے نفرت و تفریق اور انتہا پسندانہ سیاست کا چلن ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی بھی اپنی جگہ موجود۔ مگر آج تک اس کے تدارک کی حکمت عملی وضع کی جا سکی اور نہ قوانین۔ قوانین اگر ہیں بھی تو دعوئوں سے آگے بات نہیں۔ ہم برطانوی نظام سے سبق لینے کو کیوں تیار نہیں کہ جنہوں نے شرپسندوں کو گھروں سے نکال نکال کر سزائیں سنائیں۔ حکومتیں اور عدالتیں اگر دبا میں آنے لگیں اور پسند و نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگیں تو جناب ! ریاستیں ایسے نہیں چلتیں۔ شرپسند ہو یا انتہا پسند ہمارے پاس کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست اقدام کب اٹھاتی ہے۔ اس کا انتظار ہے۔ مگر کیا ہمارے شہ دماغ سیاسی رہنمائوں کو خبر نہیں کہ لیبیا، عراق، شام، یمن اور دیگر مسلم ممالک کو برباد کرنے کے بعد عالمی طاقتوں کی نظر بد پاکستان پر ہے۔ اور اس کے لیے اب سوشل میڈیا موثر ہتھیار کہ جو ذہنی پراگندگی اور نفرتوں کے پھیلائو کو فوری اور موثر ذریعہ۔ یہ پٹرولیم کی طرح وہ منبع کہ جسے لسانیت و مذہبی عصبیت کی فقط ایک چنگاری کی ضرورت۔ بلوچستان میں دہشتگرد کارروائیاں، کے پی میں لسانیت کی آگ اور ملک بھر میں آئے روز پرتشدد مظاہرے، یہ سب سازشوں کے مظاہر ہی تو ہیں۔ ہماری کوہتاہیاں اپنی جگہ، مگر کیا دشمنوں کی درپردہ اور کھلی سازشیں و کارروائیاں ہمارے اکابرین کو نظر نہیں آ رہیں۔ دو روز قبل امریکی حکام کی جانب سے چند کمپنیوں پر پابندی واضح اشارہ کہ دہشتگرد ریاست اسرائیل کو مسلمانوں کا قتل عام حتی کہ مسلم ممالک ایران، شام اور یمن وغیرہ پر حملوں کی کھلی چھٹی مگر پاکستان کو اپنے دفاع کے حق سے بھی محروم کرنے کی خواہش اور کوشش۔ اس میں کس کا کتنا کردار یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اب بھی سیاست دان اور مذہبی راہنما اس سے بے نیاز اپنے مفادات کے اسیر !!! اپوزیشن جماعت کی طرف سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے احتجاج پر احتجاج اور اب عسکری پراڈکٹس کے بائیکاٹ کا اعلان۔ گو کہ یہ فلاپ ناکام ہو گیا اور اسے عوامی پذیرائی نہ ملی وگرنہ ڈی ایچ اے کا پلاٹ کوڑیوں کے بھائو اور فوجی سیمنٹ سڑکوں پر ہر سو بکھرا پڑا ہوتا۔ ابھی تک تو دونوں کے نرخ کم ہوئے اور نہ سٹاک ایکسچینج میں ایسی کمپنیوں کے حصص۔ میری دانست میں پی ٹی آئی کارکنوں سمیت عوام کو بے جان اشیا کے بائیکاٹ کی بجائے زندہ پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ کہ اس سے نہ صرف کپتان و شریف برادران سمیت پاکستانی سیاست کے نامور ناموں سے گلو خلاصی ہو سکتی ہے بلکہ سیاسی فضا سے سیاسی انتہا پسندی و گھٹن کا خاتمہ اور تازہ خون و با صلاحیت نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اگر 70، 75سال کے تین چار نوجوان ہی اگر عوام کی حالت پر رحم کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس بائیکاٹ مہم کی افتتاحی تقریب کے طور پر پیش کر دیں تو یقین جانئے قوم ان کو ان کی خدمات پر دکھی دل مگر بھر پور خراج تحسین کے ساتھ رخصت کرے گی !!!!
پاکستان پائندہ باد !