Column

پنجاب حکومت کی مراعات یافتہ طبقے پر نوازشیں

تحریر: رفیع صحرائی
پنجاب حکومت نے سرکاری خزانے کو اندھے کی ریوڑیاں بنا دیا ہے جو صرف اپنوں میں ہی تقسیم کی جاتی ہیں۔ دیگر صوبوں کے برعکس پنجاب سرکار نے سرکاری ملازمین پر کلہاڑا اٹھایا ہوا ہے جس کے مسلسل وار کر کے ان ملازمین کو پہلے سے موجود مراعات سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
کہتے ہیں ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے۔ مائیں سوتیلی بھی تو ہوتی ہیں جو اولاد کے لیے ڈرائونا خواب بن جاتی ہیں۔ صرف پنجاب حکومت کو ہی سرکاری ملازمین ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ دیگر صوبے اپنے ملازمین کے ساتھ اس طرح بے اعتنائی نہیں برت رہے جس طرح پنجاب سرکار برت رہی ہے۔
ملازمین کی گریجویٹی، لیو ان کیش منٹ، اور پنشن پر بڑے کٹ لگا دیئے گئے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں خالی ہونے والی ڈیڑھ لاکھ اسامیوں پر نئے اساتذہ بھرتی کرنے کی بجائے سکولوں کو ہی آئوٹ سورس کیا جا رہا ہے۔
نہ ہو گا بانس، نہ بجے گی بانسری
اب سنا ہے محکمہ صحت کی شامت آنے والی ہے۔ اسی طرح ایک ایک کر کے تمام محکموں سے جان چھڑا لی جائے گی۔ صرف پولیس کا محکمہ باقی رکھا جائے گا تاکہ اس کے ذریعے مخالفین کو دبایا جا سکے۔
گھر کا ملازم چکن کڑاہی کھا رہا تھا کہ مالکن آ گئی اور غصے سے چلا کر بولی، ’’ شرفو! تمہیں کہا تھا کہ آج کے بعد گھر میں گوشت نہیں پکے گا بلکہ صرف دال پکے گی کیوں کہ صاحب بے روزگار ہو گئے ہیں‘‘۔
ملازم سکون سے بوٹی نوچتے ہوئے بولا، ’’ بی بی جی، شور مت مچائیں۔ آپ کے لیے دال ہی بنی ہے۔ یہ چکن میرے لیے ہے۔ بیروزگار صاحب ہوئے ہیں، میں نہیں‘‘۔
پنجاب اسمبلی اراکین کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھا کر 4لاکھ جبکہ منسٹرز کی تنخواہ 9لاکھ کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف عوام کے لیے بجلی مہنگی، گیس مہنگی، سلیب گردی، دھڑادھڑ ٹیکسز کہ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ملکی حالات صرف عوام کے لیے خراب ہیں۔ عوام کے خادموں کے لیے نہیں۔
پنجاب حکومت نے سب سے زیادہ مظلوم اور پسے ہوئے ارب پتی طبقے کی داد رسی کر کے انصاف کا ایسا بول بالا کیا ہے جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کو تو دی گئی مراعات سے بھی محروم کیا جا رہا ہے جبکہ ایم پی ایز، وزرائ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور مشیران کی تنخواہوں میں 426فیصد سے لے کر 850فیصد تک اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی گئی ہے۔ ایم پی اے کی تنخواہ 76000روپے سے بڑھا کر 324فیصد اضافے کے ساتھ 4لاکھ، پارلیمانی سیکریٹری کی 83000روپے سے بڑھا کر 443فیصد اضافے کے ساتھ 4لاکھ 51ہزار روپے، معاونین خصوصی اور مشیران کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 565فیصد اضافے کے ساتھ 6لاکھ 65ہزار روپے، وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 850فیصد اضافے کے ساتھ 9لاکھ 50ہزار روپے، سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھا کر 660 فیصد اضافے کے ساتھ 9لاکھ 50ہزار روپے اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار روپے سے بڑھا کر 546فیصد اضافے کے ساتھ 7لاکھ 75ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
یہ صرف تنخواہوں کی مد میں اضافہ ہے۔ ٹیلی فون، بجلی، گیس، ہوائی و ریلوے ٹکٹ، اور علاج معالجہ کی مد میں دی گئی لاکھوں روپے فی کس کی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ بیس فیس اضافے پر معترض آئی ایم ایف کو اس اضافے پر اعتراض ہے نہ بچت کے بھاشن دینے والے حکومتی زعماء کو یہ اقدام نظر آیا ہے۔
اراکین صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب لوگ گیس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب پریشان ہیں اور حکومت کی جانب سے معاشی محاذ پر کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے، تمام شعبوں میں اخراجات کم کرنے، پنشن اصلاحات، ملازمین کی رائٹ سائزنگ، حکومتی اخراجات گھٹانے اور مراعات پر کٹ لگانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی نے بل کی منظوری کو ایک اچھا حکومتی اقدام قرار دیا ہے۔ اراکین بھی خوش ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں تا ہم دوسری طرف تنخواہوں میں یکمشت پانچ گنا اضافہ سے حکومت کا صرف بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کو مراعات دینے کا تاثر بھی ابھرا ہے۔ اس فیصلے پر عوامی رد عمل بھی بہت سخت آ رہا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق مہنگائی سے غریب طبقے کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ سیاست دان تو سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے عوامی خدمت کے جذبہ سے انتخاب لڑتے ہیں۔ انہیں اپنی مراعات کے لیے قانون سازی سے زیادہ عام آدمی کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ عوامی حلقوں کی نظر میں مقتدر طبقوں کی مراعات میں اضافے اور حکومتی اخراجات کی کمی کے دعووں کو دوہرا معیار قرار دیا جا رہا ہے۔
ویل ڈن حکومتِ پنجاب۔ سرکاری ملازمین کو ذبح کر کے مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کو کئی سو فیصد بڑھانا مبارک ہو۔

جواب دیں

Back to top button