غیر مندرج، پچھڑے ہوئے لوگ

تحریر : روشن لعل
کسی بھی ملک میں اس سماجی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پچھڑا ہوا یا پسماندہ تصور کیا جاتا ہے جو نسل پرست رویوں کا شکار ہوں، کسی خوف کے بغیر جن کے خلاف کچھ بھی بولا جاسکتا ہو، جن کے متعلق مفروضوں پر مبنی دقیانوسی خیالات پھیلائے جاتے ہوں، جنہیں اجتماعی وسائل تک مساوی رسائی کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہو اور جو اکثریتی آبادی کے امتیازی سلوک کی وجہ سے الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ پسماندہ لوگوں کے متعلق بیان کردہ باتوں کو دیکھ کر جن پچھڑے ہوئے سماجی گروہوں کے نام ذہن میں آسکتے ہیں ان میں سے کچھ تو ایسے بھی جن کا آسانی سے ذکر کرنا ہی ممکن نہیں ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ذہن میں آنے والے جن پچھڑے ہوئے سماجی گروہوں کا ذکر کرنا ممکن یا ناممکن ہے ان میں سے کوئی بھی فی الحال اس تحریر کا موضوع نہیں ہے۔ جس سماجی گروہ کو پچھڑا ہوا یا پسماندہ تصور کیا جاسکتا ہو ، صاف ظاہر ہے کہ اس کے متعلق کہیں نہ کہیں کوئی ایسا ڈیٹا موجود ہوتا ہے جسے مد نظر رکھ کر ان کے متعلق کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ ایسا ڈیٹا یا تو ریاستی اداروں نے اکٹھا اور مدون کیا ہوتا ہے یا ریاستی اداروں کی عدم توجہی کے باوجود سماجی گروہ سے وابستہ لوگ خود منظر عام پر لے آتے ہیں۔زیر نظر تحریر کا موضوع پسماندہ سمجھے جانے والے وہ لوگ نہیں ہیں جن سے وابستہ معلومات ریاستی یا غیر ریاستی ریکارڈ میں کہیں درج ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جن کی بہت بڑی اکثریت کا کسی ریاستی یا غیر ریاستی ریکارڈ میں کوئی اندراج نہیں ہے۔ جن لوگوں کی بات کی جارہی ہے وہ زیر زمین رہ کر زندگی نہیں گزارتے بلکہ ہر شہر اور قصبہ میں واضح طور پر نظر آنے کے باوجود انسانی حقوق کے حوالے سے خاص توجہ حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو عام زبان میں جھگی واس، خانہ بدوش یا بنجارے کہا جاتا ہے۔ جو خانہ بدوش پیدائش سے وفات تک سرکاری ریکارڈ میں غیر مندرج رہتے ہیں ، اس ملک میں کسی اور کو ان سے زیادہ پسماندہ اور انسانی حقوق سے محروم تصور نہیں کیا جاسکتا۔
استحقاق رکھنے کے باوجود کئی نسلوں سے انسانی حقوق سے محروم چلے آ رہے خانہ بدوشوں کی سماجی پسماندگی سے وابستہ بعض حقائق راقم کی نظروں سے بھی اوجھل رہتے اگر نذیر احمد غازی نے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم نہ کیا ہوتا۔ نذیر احمد غازی سوشل ورکر ہیں اور گزشتہ تقریبا ً 25برسوں سے اپنی تنظیم ’’ گود ‘‘ کے تحت خانہ بدوشوں کو ان کے انسانی حقوق کا احساس دلانے اور سماج کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیںکہ ملک کے ہر شہری کی طرح ہر خانہ بدوش کے انسانی حقوق کو تسلیم کرنا اور ان کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔ نذیر احمد غازی نے زمانہ طالب علمی میں ان لوگوں کے ساتھ بحیثیت رضاکار کام کرنا شروع کیا جو ملک میں جمہوریت کی بحالی، استحصال کے خاتمے اور انسانی حقوق کو تسلیم کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نذیر غازی کی کارکردگی کی وجہ سے انہیں 1998ء میں بچوں کی جبری مشقت کے خلاف گلوبل مارچ میں شرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔ مذکورہ گلوبل مارچ میں بھارت کے 2014ء میں نوبل انعام حاصل کرنے والے کیلاش ستیارتھی بھی نذیر غازی کی طرح عام رضاکار کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ اس گلوبل مارچ کا حصہ بن کر نذیر غازی اور کیلاش ستیارتھی ایک ساتھ بھارت، پاکستان، ایران، ترکی، فن لینڈ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں گئے ۔ بچوں کی جبری مشقت کے خلاف مارچ میں شرکت کے بعد نذیر غازی نے خانہ بدوشوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کو ترجیح بنا کر اپنی تنظیم ’’ گود ‘‘ کی بنیاد رکھی۔
نذیر غازی کی رہنمائی میں کام کرنے والی تنظیم ’’ گود‘‘ ایک عرصہ سے خانہ بدوشوں کے اندر اپنے حقوق کے حصول کا شعور پیدا کرنے کے ساتھ عام لوگوں میں یہ احساس اجاگر کرنے کی کوششیں کر رہی ہے کہ سماج کے اس جیتے جاگتے حصے کو اگر مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس کے منفی اثرات صرف خانہ بدوشوں پر ہی نہیں بلکہ یہاں موجود تمام انسانی گروہوں پر مرتب ہوں گے۔ افسوس کہ خانہ بدوشوں کے انسانی حقوق کے لیے شروع کی گئی آگاہی مہم کو صرف عام لوگوں کی اکثریت نے ہی نظر انداز نہیں کیا بلکہ خود خانہ بدوشوں نے بھی پذیرائی نہیں بخشی۔ بالغ خانہ بدوشوں کے رویوں کو دیکھتے ہوئے ’’ گود‘‘ نے ان کے بچوں کو اپنے توجہ کا مرکز بنایا اور ان کے لیے ’’ نیا دن‘‘ کے نام سے ان کی جھگیوں کے قریب سکول بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان سکولوں میں خانہ بدوشوں کے بچوں کو نہ صرف مفت کاپیاں اور کتابیں دی گئیں بلکہ ایک وقت کا کھانا بھی فراہم کیا گیا۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا خانہ بدوش والدین کی ترجیح نہیں ہے لیکن ان کے بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق عام بچوں سے بھی زیادہ ہے۔ محدود وسائل کی وجہ سے ’’ گود‘‘ نے خانہ بدوش بچوں کو تعلیم دینے کا پروگرام صرف انہیں پڑھنے لکھنے کے قابل بنانے تک محدود رکھا تھا لیکن اپنے شوق کی بدولت جھگیوں میں رہنے والے کچھ بچے تنظیم کی وساطت سے میٹرک ، ایف اے تک تعلیم پانے کے بعد ڈگری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ ’’ گود‘‘ کے ’’ نیا دن‘‘ سکول کی ثمرہ نامی طالبہ حصول علم کے شوق میں انگلینڈ تک جا پہنچی۔ ثمرہ نے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہ صرف وہاں مستقل سکونت اختیار کی بلکہ وہ ان کی رگبی ٹیم کی اہم رکن بھی ہے۔ اسی طرح گود کے ’’ نیا دن‘‘ سکول کا ایک طالب علم ڈگری لیول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوڈ کورٹ ایمپوریم مال میں مینجر کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ ضلع لاہور کے 1772 کلومیٹر پر محیط علاقے میں خانہ بدشوں کی جھگیوں پر مشتمل کئی آبادیاں ہیں ۔ ان آبادیوں میں اس وقت ’’ گود‘‘ کے سترہ سکول ، چل رہے ہیں۔ ان سکولوں میں خانہ بدوش بچوں کو نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ انہیں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ نذیر غازی کے مطابق خانہ بدوشوں کے بعض بچوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ٹیلنٹ موجود ہے مگر ’’ گود‘‘ اپنے محدود وسائل کی وجہ سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے مکمل سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی صاحب حیثیت انسان کسی خانہ بدوش بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی سکت اور خواہش رکھتا ہو تو وہ گود کی ویب سائٹ (https://godh.org.pk)کو دیکھ کر نذیر غازی سے موبائل نمبر 03004582317پر رابطہ کر سکتا ہے۔
نذیر غازی اس بات پر تو مطمئن ہے کہ ’’ گود‘‘ کی کوششوں سے خانہ بدوش بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کی شوق پیدا ہوا لیکن انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود خانہ بدوشوں کی بڑی تعداد کا پاکستان کے ریاستی ریکارڈ میں کہیں اندراج نہیں ہوسکا۔ ’’ گود‘‘ جیسی تنظیمیں خانہ بدوشوں کے ریاستی ریکارڈ میں اندراج کے لئے صرف کوششیں کر سکتی ہیں ، اس طرح کی کوششوں کے باوجود یہ لوگ اس وقت تک شناختی کارڈ کے حامل رجسٹرڈ پاکستانی شہری نہیں بن سکیں گے جب تک حکومت ان کے سرکاری ریکارڈ میں اندراج کے لیے کوئی خصوصی پالیسی مرتب نہیں کرتی۔