Column

حاصل

تحریر: علیشبا بگٹی
مشہور ریاضی دان فیثا غورث ایک لوہار کی دکان کے پاس سے گزر رہا تھا۔ دکان میں لوہے پر ہتھوڑے چل رہے تھے۔ فیثا غورث نے کھڑے ہو کر جب غور سے سنا تو یہ دو ہتھوڑے تھے۔ ایک میں لوہا ضرب کھانے کے بعد تیز آواز کر رہا تھا۔ جبکہ دوسرے ہتھوڑے کی ضرب کی آواز کم تھی۔ فیثا غورث دکان کے اندر گیا۔ اس نے دیکھا زیادہ آواز پیدا کرنے والا لوہے کا ٹکڑا کم آواز والے لوہے کے ٹکڑے کا آدھا تھا۔ یہی تحقیق octaveکی بنیاد تھی، یعنی آٹھ سُروں کا سرگم،، اسی سے فیثا غورث نے تحقیق کی اور ساز و آواز کی دنیا کا سارا ردھم حساب کتاب میں تلاش کر لیا۔ اُس نے کہا آوازوں کا بھی ایک حساب ہے، یہ حساب بدلو تو آواز بدل جاتی ہیں۔ دُنیا حساب کتاب پر کھڑی ہے۔ گلاب کا پھول بھی خوبصورت ہے اور نرگس کا پھول بھی حسین تر ہے۔ گلاب میں لیکن کانٹے ہیں، نرگس میں کوئی کانٹا نہیں۔ لیکن گلاب کے پھول میں خوشبو بھی ہے اس سے آپ گل قند بنا سکتے ہیں، اس سے عرق گلاب کشید کر سکتے ہیں۔ جبکہ نرگس کو آپ صرف دیکھ کر خوش ہو سکتے ہیں۔ ہم لوگ گلاب کا پھول تو پسند کرتے ہیں لیکن اس کے کانٹے نہیں.۔ ایسا ہی ہم لوگوں کو پسند اور نا پسند کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں لوگ ہماری پسند حاصل کرنے کیلئے اپنی فطرت بدل لیں۔ لیکن ہم اکثر نہیں جانتے فطرت نے گلاب کی بقا کیلئے ہی کانٹے کھڑے کئے ہوئے ہیں۔ وہ کون سے خوف تھے جن کی وجہ سے گلاب نے کانٹوں میں پناہ لی۔ فطرت کا یہی حساب کتاب ہے۔ جس کی سمجھ سے ہمیں پھر گلاب کے کانٹے برے نہیں لگتے۔ جیسے فیثا غورث کی ایک تحقیق نے ساز و آواز کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا ایسے ہی آپ کی سوچ اور رشتوں سے توقعات و تعلقات میں بھی انقلاب آجاتا ہے، جب آپ دوسروں کے کانٹے گنتی کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ بڑے بن جاتے ہیں، بڑے پھر شور کم مچاتے ہیں۔
میکیاولی نے کہا کہ ’’ کبھی بھی وہ چیز طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں جو دھوکہ دہی سے حاصل کی جا سکتی ہو ‘‘۔
سب حاصل اور لاحاصل کے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کی حسرت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ کوئی ڈپریشن نہ پالیں، جو حاصل ہے اسی کو سیلیبریٹ کرنا سیکھیں، یہی زندگی کی رونق ہے۔ ویسے بھی سب کچھ عارضی اور فانی ہے۔ اسی سوچ کے بعد حاصل اور لاحاصل کے درمیان جنگ ختم ہوجاتی ہے۔۔ کسی نے کہا کہ لاحاصل ہی رہے تو اچھا۔ حاصل خاک برابر۔۔۔ انسان کی تمام فطرتوں میں سے المناک فطرت یہ ہے کہ اُسے مکمل حاصل ہو جانے والی چیز سے اُکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔
ہم جو اسے حاصل آساں ہوئے
وہ نادان ہمیں عام سمجھ بیٹھے
اِنسان حاصل کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے اُس بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے، نہ تتلیاں ملتی ہیں نہ واپسی کا راستہ۔ شاعر کہتا ہے کہ
حاصل عشق غم دل کے سوا کچھ بھی نہیں
اور اگر ہے تو سب ان کا ہے مرا کچھ بھی نہیں
جو خدا دے تو بڑی چیز ہے احساس جمال
لیکن اس راہ میں ٹھوکر کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی کا حاصل ایک ایسا موضوع ہے جو فلسفے، ادب، اور ذاتی تجربات میں گہرائی سے زیرِ بحث آتا ہے۔ ہر انسان کے لیے زندگی کا حاصل مختلف ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ فرد کی ترجیحات، مقاصد، اور تجربات پر منحصر ہوتا ہے۔۔ زندگی کا اصل حاصل یہ سمجھنا ہے کہ ہمارا وجود کیوں ہے؟ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت کرنا، محبت بانٹنا، یا اپنی ذات کی بہتری ہے۔ کچھ لوگ زندگی کا حاصل خوشی اور سکون کو مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک چھوٹے چھوٹے لمحات سے خوشی کشید کرنا اور اپنی زندگی سے مطمئن ہونا ہی اصل کامیابی ہے۔ علم کا حصول اور اپنی سوچ کو وسیع کرنا بھی زندگی کے حاصل میں شامل ہے۔ ایک بہتر انسان بننا اور اپنی ذات کو جاننا بھی ایک اہم پہلو ہے۔ محبت، دوستی، اور خاندانی تعلقات میں مضبوطی زندگی کا حاصل ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ انسانی جذبات کو تقویت دیتے ہیں۔ کچھ افراد کے لیے زندگی کا حاصل مادی کامیابی، عزت، اور اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کرنا ہوتا ہے۔۔۔ مذہب یا روحانیت کے راستے پر چلنے والے لوگ زندگی کا حاصل اللہ کی رضا، عبادت، اور آخرت کی تیاری میں دیکھتے ہیں۔ الغرض زندگی کا حاصل ہر شخص کے لیے انفرادی ہے۔ کچھ کے لیے یہ ایک لمحے کا اطمینان ہے، تو کچھ کے لیے یہ طویل جدوجہد کے بعد ملنے والا سکون۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی ترجیحات کا تعین کیا جائے اور اپنے مقصدِ حیات کو پہچانا جائے۔
حاصل زندگی، حسرت کے سوا ،کچھ بھی نہیں
یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں، وہ رہا نہیں

جواب دیں

Back to top button