عالمی منظر نامہ

محمد مبشر انوار
عالمی بساط پر معاملات انتہائی برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس سے قبل ہی صیہونی طاقتیں اپنے اہداف کے حصول میں بے جین نظر آتی ہیں۔ گزشتہ برس غزہ میں کی گئی جارحیت اب مزید پھیلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور قرب و جوار میں اسرائیل اپنے پنجے گاڑتا ہوا صاف دکھائی دے رہا ہے جبکہ غزہ کے اپنے حالات پر اس وقت بھی بے یقینی کی سی کیفیت ہے ۔ مستقبل قریب میں غزہ کس طرح اس جارحیت کی مزاحمت کرتا ہے، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان بن رہا ہے کہ گزشتہ برس کی جانے والی جارحیت کے جواب میں، غزہ کے مجاہدین بہرطور کسی نہ کسی طرح ڈٹے ہوئے تھے جبکہ ان کی حمایت میں حزب اللہ ، حوثی اور ایران کھڑے دکھائی دے رہے تھے ۔ غزہ کو ہڑپنے میں روکنے کے لئے اسرائیلی جارحیت کا عملا جواب بہرطور مسلم ریاستوں میں صرف ایران ہی موثر طور پر دے رہا تھا گو کہ اس جواب کے باوجود اسرائیلی ظلم و ستم میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی اور اس کے ہاتھ روکنے والی طاقتیں ہی درحقیقت اس کے پشت پناہی کرتی دکھائی دی۔ اس مزاحمت کے دوران ایران نے بھاری نقصان بھی اٹھایا، اپنی خودمختاری و سالمیت کو بھی ہدف بنوایا لیکن بہرطور کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر سمجھا، خواہ اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ جبکہ دیگر مسلم ممالک کی کاوشیں صرف اتنی رہی کہ کسی نہ کسی طرح ’’ جنگ بندی‘‘ ہو سکے، عملا کسی بھی ریاست کو میدان میں اترنے کی نہ جرات ہوئی،نہ ہمت ہوئی اور نہ اجازت مل سکی۔ امت مسلمہ کی باتیں کرنے والے تمام مسلم ممالک کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ایسی انفرادی سوچ رکھنے کے باوجود، امت مسلمہ کا نام لیا جانا چاہئے کہ ایک طرف غیر مسلم ہیں، جو اپنے شہریوں کے انتقام میں پورے پورے ملک ویران کر دیتے ہیں جبکہ امت مسلمہ جس کے متعلق نبی اکرمؐ کا فرمان مبارک ہے کہ یہ ایک جسم کی مانند ہے اور ایک عضو میں تکلیف، پورا جسم محسوس کرتا ہے، جو حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران نظر نہیں آئی۔ بہرطور عرب سپرنگ سے شروع ہونے والی تبدیلی کی یہ لہر، کچھ وقت کے لئے اپنے اہداف فوری طور پر حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہی لیکن آخرکار، ایک اور ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ شام کے صدر بشار الاسد نے اس تبدیلی کے راستے میں سخت مزاحمت کی اور پھر اچانک نہ صرف انہیں بری طرح شکست ہوئی بلکہ انہیں شام سے فرار ہونا پڑا اور یوں اس وقت شام میں حیاہ التحریر شام اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ محمد الجولانی نے امیہ مسجد سے ایک تاریخی خطاب تو کیا ہے لیکن اس کے برعکس جو حالات شام کے بظاہر دکھائی دے رہے ہیں، ان سے مستقبل قریب میں کسی بہتری کی امید کرنا، ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ ماضی میں ایسی ہی صورتحال دیگر کئی ایک عرب ممالک میں ہو چکی ہے اور ان ممالک کی حالت اس وقت ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کیسے ان ممالک کی حکومتوں کو تہس نہس کر کے، پورے معاشرے میں بے سکونی کی فضا پیدا کر دی گئی ہے۔ تاہم اپنی اس کوشش میں عالمی طاقت، افغانستان میں بری طرح شکست کھا کر، اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے طریقہ کار میں ایک واضح تبدیلی بھی دیکھی گئی ہے اور وہ عالمی برادری کے ساتھ قدرے بہتر انداز میں بروئے کار آ رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف عراق و لیبیا کی حالت سب کے سامنے ہے کہ کس طرح ترقی کرتی ہوئی معیشت کو زمین بوس کیا جا چکا ہے اور امن کے ٹھیکیداروں کی جانب سے پر امن معاشرے کو خانہ جنگی میں دھکیلا جا چکا ہے۔
گو کہ شام گزشتہ طویل عرصے سے خانہ جنگی کی سی صورتحال سے دوچار تھا اور بشارالاسد کی چیرہ دستیوں پر عوام کی حالت زار انتہائی ناگفتہ بہ تھی تاہم شام کی باقاعدہ فوج کی موجودگی میں، اسرائیلی جارحیت اتنی آسان نہ تھی جو تخت الٹنے کے باعث دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ تبدیلی اسرائیل کے لئے کسی نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں کہ جیسے ہی تخت الٹا، ایک طرف شامی فوج نے ہتھیار ڈالے ہیں تو دوسری طرف یکایک اسرائیلی گولان کی پہاڑیوں پر چڑھ دوڑا ہے اور تادم تحریر شنید یہ ہے کہ اسرائیل نے گولان پہاڑیوں پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ شام کے خلاف جاری یہ کوششیں تو عرصہ دراز سے جاری تھی اور ساری دنیا اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف تھی کہ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے میں روس کا بھرپور کردار تھا ،حتی کہ حالیہ یورش کے وقت بھی روسی فوج شام میں اپنے فوجی اڈوں پر موجود تھی لیکن اس کے باوجود بشارالاسد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا ہے، کیا اسے روسی شکست تسلیم کیا جاسکتا ہے یا کہیں پس پردہ یوکرین میں اپنے اہداف کے حصول میں روس نے کہیں سمجھوتہ کیا ہے؟ کیونکہ شام میں حتمی نتیجہ آنے سے قبل ہی روس نے یوکرین پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کر دی تھی اور اپنے اہداف کے حصول میں اپنی بھرپور توانائیاں صرف کئے ہوئے ہے، بالخصوص ٹرمپ کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے اور روسی صدر کے ساتھ تعلقات کو مد نظر رکھیں تو غالب امکان یہی ہے کہ جنگ بندیوں کی کوشش میں یہ ممکن ہے کہ روس کو بھی بیس جنوری کے بعد یوکرین میں جنگ جاری رکھنا مشکل ہو جاتا لہذا اس سے قبل ہی مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے اہداف کا حصول ممکن بنایا جارہا ہو۔ رہی بات مشرق وسطیٰ میں موجودگی کی، یا اپنے مفادات کے حوالے سے، تو یقینی طور پر قومی مفادات کے سامنے ،وہ ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے، تقریبا یہی صورتحال کسی نہ کسی طرح چین کے ساتھ بھی دکھائی دیتی ہے گو کہ چین نے تاحال سوائے بھارت کے، کہیں بھی اپنی فوجیں میدان میں نہیں اتاریں۔
اس پس منظر میں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ شام میں تخت الٹنے کی امریکی کوششیںدرحقیقت اسرائیل کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کے لئے ہی تھی جس کا اسرائیل اس وقت بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور نجانے اس کا انجام و اختتام کہاں ہو گا ؟ فی الوقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس ایک کامیابی سے اسرائیل اپنے اصل ہدف، گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کر لے گا، تاہم اس سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اپنے قیام کے بعد سے اسرائیل ایک تسلسل کے ساتھ اپنی جغرافیائی سرحدوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے جبکہ عالمی قوانین اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ اقوام متحدہ ہو یا سیکیورٹی کونسل، عالمی عدالت انصاف ہو یا عالمی عدالت جرائم ہر ادارہ اسرائیل کے سامنے بے بس و لاچار ہے، خواہ ان اداروں میں متعدد قرار دادیں منظور ہو جائیں یا ان عالمی عدالتوں سے اسرائیلی وزیراعظم یا کابینہ کے اراکین کے خلاف فیصلے آ جائیں، کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ اسرائیل کے خلاف اور نہ ان افراد کے خلاف دیکھنے میں آئی ہے۔ اسرائیل کی ڈھٹائی کے ساتھ پشت پناہی کرنے میں امریکہ کوئی عار محسوس نہیں کرتا بالخصوص جو بائیڈن دور حکومت میں اسرائیلی کو ہر طرح کے ظلم و ستم کی کھلی چھٹی میسر تھی جبکہ نو منتخب صدر ٹرمپ کے حوالے سے پالیسی بدلے جانے کا امکان ہے ۔ تاہم اس تبدیلی کا مطلب قطعا یہ نہیں ہو گا کہ امریکہ کھل کر اسرائیل کی مخالفت کرے گا بلکہ اپنے گزشتہ دور کی پالیسیوں پر دوبارہ عملدرآمد کروانے کا ازسر نو آغاز ہوگا، یعنی ٹرمپ کی خواہش کے مطابق بیس جنوری سے قبل اسرائیل جو کرنا چاہتا ہے، اسے کوئی نہیں روک سکے گا جبکہ بیس جنوری کے دن، ٹرمپ کی یہ خواہش ہے کہ اس خطے میں ’’ جنگ بندی‘‘ ہو جائے۔ بعد ازاں، اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے، ابراہم اکارڈ کو دوبارہ عالمی برادری کے سامنے بالعموم جبکہ مسلم ریاستوں کے سامنے بالخصوص رکھا جائے گا، کہ امن کی یہ قیمت انہیں چار و ناچار قبول کرنا ہو گی۔ شنید یہی ہے کہ غزہ کے مجاہدین کے لئے اسلحہ وغیرہ کی سپلائی جو براستہ شام ممکن ہو رہی تھی، اس تبدیلی کے بعد اب یہ بھی ممکن نہیں رہے گا اور اسرائیل ہر جانب سے غزہ کو اپنی جارحیت کی لپیٹ میں لے لے گا کہ دور حاضر میں بغیر اسلحہ کے مزاحمت کب تک جاری رہ پائے گی؟ بہرطور مسلم ریاستوں میں بھی سب سے اہم ترین ممالک میں سعودی عرب اور پاکستان کو یہ معاہدہ تسلیم کرنے پر زور دیا جائے گا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے، ان دو ممالک سے یہ معاہدہ تسلیم کروایا جائے تا کہ دیگر اسلامی دنیا کو بھی مجبور کر کے، یہ معاہدہ منظور کروایا جائے۔ بظاہر اس وقت عالمی سطح پر یہی منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے، ابراہم اکارڈ کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں کس مسلم ملک کی باری آتی ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، بس بکھری ہوئی مسلم دنیا اپنے اپنے وقت کا انتظار کرے۔