خوفناک سیلاب اور قحط کا خطرہ!

عابد ضمیر ہاشمی
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے لوگ نقل مکانی کر جائیں گے ۔ انسانوں نے درختوں، قدرتی وسائل کو بے دردی سے ضائع کیا۔ جس کے باعث دُنیا تباہی کے دہانے آن پہنچی۔ پاکستان میں متعدد شہروں اور دیہاتی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے انسانی زندگی اجیرن کر دی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کی مطابق 2050عیسوی تک بنگلہ دیش اور پاکستان میں لاکھوں انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہونگے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہایت خطرناک ہونگے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اِنسانی نسل کو اِس وقت سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ انسان کے اپنے ہی پیدا کردہ تباہ کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اکثر ملکوں کے لئے ماحولیاتی تبدیلی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ دُنیا اِس مقام سے بہت دور ہے جہاں اسے اصل میں ہونا چاہئے تھا۔ وطن عزیز کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید خطرات کا سامنا ہے۔
سائنسدان، ٹیکنالوجی کے ماہرین کا اِن موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ دُنیا بھر کے ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ دُنیا بھر میں تیل، گیس کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اس مسئلہ کو پیچیدہ تر کر دیا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع نہ ہونے کی بنا ء پر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دُنیا کے مختلف ممالک میں خوفناک سیلاب آئینگے۔ دُنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے میں سے ایک ہے۔ رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار، متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ پاکستان موسمی تبدیلیوں سے متاثر ممالک میں شامل ہے جہاں کہیں تو سخت ترین سرد موسم کے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں تو کہیں گرمی نے خطہ کو پگھلا کر رکھ دیا۔ کہیں سیلابوں اور طوفانوں نے تباہی مچائی تو کہیں طوفانی بارشوں نے بے حال کر دیا۔ پاکستان میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے نقل مکانی اور ذرائع آمدن کی تبدیلی جیسے مشکل فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہے۔
لندن کی انوائرمنٹل جسٹس فائونڈیشن کے مطابق دنیا میں 26ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور 2050ء تک 500سے 600ملین لوگ مزید ہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ شدید دیگر خطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔ سائنس دان عالمی حدت میں اضافہ کی بڑی وجہ گرین ہائوس گیسوں کی بڑی مقدار کا فضاء میں اخراج قرار دیتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس، کوئلہ، تیل سے توانائی پیدا کرنے کے ماحول پر منفی اثرات انسانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ مضر رساں ہیں۔ کوئلہ توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70فی صد زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے۔ ہمارا بھی ماحول کی تباہی میں بنیادی کردار ادا ہے جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کے رقبہ میں آگ، بلند و بالا عمارتیں، بڑھتی ہوئی آبادی، گاڑیوں کی بہتات وغیرہ شامل ہیں۔
اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989ء سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔ ویب آف سائنس کے مطابق واٹر ٹاور آف ایشیا ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم، قطب شمالی و قطب جنوبی کے بعد برف کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور یہی پہاڑی سلسلے دریائے سندھ کی روانی کے ضامن بھی ہیں۔ پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں، شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے سربراہ آصف انعام کی تحقیق کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے زیر آب آ چکے ہیں جبکہ 2050ء تک سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین پانی میں ڈوب چکے ہوں گے۔
ماہرین ماحولیات متعدد مرتبہ اس خدشہ کا اظہار کر چکے ہیں کہ سمندر کی سطح میں تیزی سے اضافہ کے باعث 2060ء تک دو کروڑ سے زائد آباد ی کا شہر کراچی زیر آب آ سکتا ہے، سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں سمندر کی سطح میں اضافہ زیر زمین پانی میں کمی خشک سالی، سیلاب و دیگر موسمی تبدیلیوں سے جڑے مسائل کی وجہ سے ہزاروں گھرانے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ متعدد گھرانے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مستقبل میں موسمی تبدیلیوں کی ہولناکی سے لاکھوں خاندان ایسے ہی خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ صنعتی سرگرمیوں کے دو بڑے مراکز چین اور بھارت کے درمیان میں واقع ہونے کے باعث پاکستان گوناگوں ماحولیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار پانی پر ہے جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے حصے کو صاف پانی میسر نہیں، پانی کے بحران میں مبتلا اس ملک کی پانی سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں۔ آبی ذخائر بنانے اور دریائوں، ندی، نالوں کا پانی نامیاتی و صنعتی و دیگر آلودگی سے محفوظ رکھنا ہو گا۔ ہمارا ملک انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے اور باقی ماندہ جنگلات اور درخت تیزی سے صاف کیے جارہے ہیں۔
موجودہ جنگلات اور درختوں کو بچانا اور نئے جنگلات اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کیمیائی کھادوں، زہروں اور دیگر کیمیائی مادوں کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا اور زراعت میں ماحول دوست اور استقامت انگیز(Sustainable)طریقے اپنانا ہونگے۔ بائیو ڈائیورسٹی، ویٹ لینڈز اور جنگلی حیات کو محفوظ بنانا ہوگا۔ گلیشئرز کو جوکہ تیزی سے پگھل رہے ہیں اور آبی وسائل، دریائوں، جھیلوں وغیرہ کو محفوظ بنانا ہوگا۔ ہمیں سمندر کے پانی کو زرعی، صنعتی اور دیگر آلودگیوں سے زہریلا اور تیزابی ہونے سے بچانا ہوگا۔ ہمیں اپنے قدرتی وسائل پر بوجھ کم سے کم کر کے ان کے استعمال کو استقامت انگیز بنانا ہوگا۔ ہم نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو محدود کرنے سمیت دیگر اہم اقدامات نہ کئے تو اس کے بعد سیلاب، طوفان، موسمیاتی شدت، خشک سالی، فصلوں کی تباہی کا عمل تیز ہوسکتا ہے جس کے پورے سیارے پر غیر معمولی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
ہمیں قدرتی وسائل کا احساس کرتے ہوئے ان کی حفاظت کرنا ہوگی، بصورت دیگر ہم اپنی ہی تباہی کا سامان مہیا کر رہے ہیں، جو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔