Column

داستان کرپشن و مہنگائی

باغ و بہار
ایم فاروق قمر
کرپشن ایک معاشرتی اور اخلاقی برائی ہے جو کسی بھی نظام کی بنیاد کو کمزور کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئی فرد، گروہ، یا ادارہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے طاقت، عہدے، یا وسائل کا ناجائز استعمال کرتا ہے، خواہ یہ مفاد مالی ہو یا غیر مالی۔ بدعنوانی کو عام طور پر دھوکہ دہی، رشوت، اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ رشوت، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال ، فرائض میں غفلت اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنا ، مالیاتی بدعنوانی، مہنگائی وغیرہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
مہنگائی اور کرپشن کے ناسور نے ایک ساتھ جنم لیا ہے یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ مہنگائی کا جن طاقتور ہونے کے باوجود قابو میں رہتا ہے مگر جون ہی ملکی س اقتصاد ی دولت کام ہونے لگتی ہے کرپشن اور مہنگائی بے قابو ہو جاتی ہے۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا:
1۔ کسی برائی کو دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو کی کوشش کرو۔
2۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے روکنے کی کوشش کرو۔
3 ۔ اگر زبان سے برائی کو روکنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تو دل میں برا جانو اور یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔
تیسرے قول کو اکثر لوگوں نے اس حد تک اپنے ذہنوں میں نشین ذہن نشین کر لیا ہے کہ برائی کو صرف دل ہی میں برا کہنے سے ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔ تیسرے قول کی یہ جامع تعریف نہیں ہے اگر ہم ہر برائی کو صرف دل میں برا جانے اور کچھ نہ کہیں اور نہ کریں بلکہ ہی سمجھیں کہ ہم ایمان کی کمزور ترین حالت میں ہیں۔ یہ ہرگز نہیں ہے۔ دراصل کا جو بہترین مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ اگر تم برائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتے ہو اور زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہو اور دل میں برا جاننے ہو تو اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اس چیز کا بائیکاٹ کر دو، اس شخص سے میل جول لین دین تعلقات ختم کر دو ۔ یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔ ایسا تو بہت سے لوگ چوری بھی کرتے ہیں اور دل میں برا بھی سمجھتے ہیں ، لوگ ڈاکے بھی ڈالتے ہیں اور دل میں یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ برا ہے، تو کیا وہ پھر بھی ایمان کی کمزور ترین حالت میں ہوں گے، نہیں بالکل نہیں۔ کرپشن کا ایک نام نہیں ہے اس کا ایک ہی وقت میں بہت سے نام ہیں رشوت لینا بھی کرپشن ہے رشوت دینا بھی کرپشن ہے۔ اپنے فرائض سے غفلت کا نام بھی کرپشن ہے ، ملک میں اگر مہنگائی کا زور ہے تو پھر بھی کرپشن ہے ، لوگوں نے مال سٹاک کیا ہوا ہے، مال کی ذخیرہ اندوزی کی ہے کہ مہنگا ہونے پر زیادہ منافع کے ساتھ فروخت کریں گے تو یہ بھی کرپشن ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے کسی دوسرے کی مفادات کو قربان کر دینا یہ بھی کرپشن ہے۔ اس میں صرف فرد واحد کا قصور نہیں ہے جب بہت ساری قوتیں مل جاتی ہیں اور لوگوں میں کرپشن رچ بس جاتی ہے تو پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے مہنگائی کا طوفان آتا ہے پھر ہماری دعائیں بھی قبول نہیں ہوتی ہیں، ہماری نمازیں، ہمارے حج ، ہمارے عمرے بھی قبول نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے وہی نمازیں پڑھ کر تو دکان پہ بیٹھ جانا ہے وہی کرپشن کرنی ہے وہی ذخیرہ اندوزی کرنی ہے وہ کس کام کی۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک کا جمہوری نظام غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں میں ہے اور غیر جمہوری قوتوں پر مافیا کا مکمل کنٹرول ہے اور مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ حکومت بھی اس کے سامنے بس ہے۔ حزب اختلاف جب اقتدار میں نہیں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق کا بار بار خیال آتا ہے۔ ہر سخت قانون کو کالا قانون کہتی ہے اور آزادی صحافت پر پابندی لگانے کو جرم تصور کرتی ہے۔ بجلی، مہنگائی میں اضافے پر حکومت کی ناکامی تصور کرتی ہے مگر جب یہی حزب اختلاف، اقتدار میں آتی ہے تو ہر کام کو جائز سمجھتی ہے۔ آزادی صحافت کو ذمہ داری کا سبق دیتی ہے۔ مہنگائی ہونے پر مجبوری کا احساس دلاتی ہے۔
جہاں تک مافیا کا تعلق ہے تو مافیا انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ یہ عربی رسم الخط کے ساتھ اردو میں بطور اسم استعمال کیا جاتا ہے۔ اصطلاحاً ’’ مافیا‘‘ ایک ایسے منظم جرائم پیشہ گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنے مذموم اور غیر قانونی مقاصد کے حصول کے لئے ہر طرح کے جائز اور ناجائز حربے استعمال کرتا ہے۔ شروع شروع میں اٹلی میں ’’ صقیلہ‘‘ کے جرائم پیشہ عناصر کو مافیا کہا جاتا تھا۔ سی سیلین (cicylian )مافیا بھی اٹلی ہی کی اختراع ہے۔مافیا منظم جرائم پیشہ گروپ کو کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں مافیا اٹلی کے صقلیہ کے مجرم عناصر کو کہا جاتا تھا، انھیں ’’کوسا نوسترا‘‘ (Cosa Nostra)بھی کہا جاتا ہے جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں صقلیہ میں خوب پھل پھول رہے تھے۔ بعد ازاں یہ اصطلاح عام ہو گئی۔ ہمارے ہاں مافیا کی اصطلاح ایک عرصے سے مستعمل ہے خاص طورپر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں یہ اصطلاح ہر طرح کے غیر قانونی منظم دھندوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ مثلاً ٹینکر مافیا ، آئل مافیا،بلڈر مافیا ، بھتہ مافیا ، لینڈ مافیا ، ڈرگ مافیا اور ملاوٹ مافیا وغیرہ۔
کرپشن کے نام پہ ہم اپنی دکانوں پہ حدیث مبارکہ بھی لکھاتے ہیں۔
ترجمہ: ’’ جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ ( جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1315)
رسولؐ اللہ کا ایک اور ارشاد ِ گرامی ہے: ’’ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔
جب کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے: ’’ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو‘‘۔ ( سورۃ البقرہ)۔
قرآن کریم نے جن نافرمان قوموں کی بربادی و ہلاکت کی عبرت ناک داستان بیان کی ہے، ان میں خطیب الانبیائ، حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے، جس کی تباہی کا سب سے بڑا سبب کفر و شرک کے بعد، اس میں پائی جانے والی کرپشن، غبن، ناپ تول میں کمی اور خیانت تھی۔ اس قوم کے جلیل القدر پیغمبر، معاشرے میں ایک طویل عرصے تک حق و اصلاح احوال کی صدا لگاتے رہے اور باربار غبن و کرپشن کی وبا سے نکلنے اور بچنے کی تلقین کرتے رہے۔
وہ کہتے رہے: ’’ اے میری قوم! ناپ تول کو مکمل انصاف کے ساتھ پورا کرکے دیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی ( اور کرپشن) نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھیرو‘‘۔ ( سورۃ ہود)۔
لیکن سرکشی میں مبتلا قوم پر پیغمبرانہ صدائوں کا کوئی اثر نہ ہوا، اس قوم کے رگ و ریشے میں خیانت و کرپشن اس طرح پیوست ہوگئی تھی کہ اصلاحِ حال کی یہ صدائیں،ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔
وہ جواب میں کہتی رہی: ’’ اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہم سمجھ نہیں پاتے‘‘۔
جب وہ کسی طرح نہیں سدھرے اور مہلت کا عرصہ تمام ہوا تو رب کی طرف سے پکڑ آئی اور ایک چیخ نے سرکشوں کو صفحہ ہستی سے یوں مٹا دیا، جیسے وہ ان بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے۔ مگر اس کے باوجود بھی ہم وہ تمام برے اعمال کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی دین اسلام نے ممانعت فرمائی ہے۔
کرپشن ہمارے معاشرے کا وہ بدترین اور مہلک مرض ہے، جو سماج کی رگوں میں زہریلی خون کی مانند سرایت کر کے پورے نظام انسانیت کو کھوکھلا اور تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ یہ ظالم کو پناہ دیتا اور مظلوم کو جبراً ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتا ہے، کرپشن ہی کے ذریعے گواہ، وکیل اور حاکم سب حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں۔ عوام بیچارے ہر انتخابات پر اپنی امیدیں امیر لوگوں اور نامزد نمائندوں سے وابستہ کر لیتے ہیں کہ شاید اس بار وہ ان کے حال پر رحم کھائیں گے اور ملکی حالات سدھاریں گے مگر ان کی یہ خواہشیں دل ہی دل میں رہ جاتی ہیں کیونکہ اقتدار میں آ کر یہ نمائندے جنہیں عوامی نمائندے کہا جاتا ہے امیرالدین بن جاتے ہیں۔
بچپن میں میں ایک جملہ سنتا تھا رشوت لینا جس کا کام ذلیل کمینہ اس کا نام۔ تو ہمارا معاشرہ اس کو یوں نام دیتا ہے کہ رشوت لینا جس کا کام نیک آدمی اس کا نام۔
ڈاکٹر جو کہ ایک مسیحا ہے وہ زائد فیس کی صورت میں کرپشن کرتا ہے اور ڈاکٹر سے ڈاکو بن جاتا ہے اور اپنے مقدس پیشے کو دولت کی ہوس میں قربان کر دیتا ہے۔
تین ملکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کوریا، تھائی لینڈ اور اٹلی۔
کوریا میں کرپشن اس قدر زائد ہو گئی تھی ، بھوک نے ڈیرے ڈال لیے تھے، مہنگائی زوروں پہ تھی اور حالات یہ تھے کہ آدھے ڈالر میں عورت بکتی تھی۔ تھائی لینڈ کی حالت کرپشن مہنگائی کی وجہ سے قابل رحم تھی اور اٹلی میں مافیا اور ڈرگ کا پورے ملک پر کنٹرول تھا۔ مگر ان تینوں ملکوں نے ہمت اور حوصلے کے ساتھ کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کی کوشش کی اور تھائی لینڈ آج ایک کامیاب ملک بن چکا ہے، اٹلی اور کوریا تو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔
چھوٹا سا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تباہ حال اور قحط شدہ آبادی کے اوپر سے ہوا کے رخ ایک ہنس نر اور مادہ گزر رہے تھے کہ مادہ کی نظر نیچے پڑی اور اس نے اپنے ساتھی سے کہا اس آبادی کی تباہی کا سبب کیا ہے ؟۔ اچانک نر ہنس کی نظر ایک درخت پر پڑی، جس پہ ایک الو بیٹھا تھا، وہ کہنے لگا کہ اس آبادی کی نحوست کا سبب وہ الو ہے، جس کی وجہ سے یہ تباہ اور قحط شدہ حالت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اتفاق سے الو نے ہنس کی بات سن لی اور آواز دے کر کہا۔ اے میرے دوست ذرا نیچے اتر کر میری ایک بات سنتے جائو۔ ہنس نر اور مادہ ہنس دونوں الو کے پاس درخت پر گئے تو الو نے جلدی سے مادہ ہنس کو دبوچ لیا اور کہنے لگا یہ تو میری مادہ الو ہے۔ ہنس نر کہنے لگا جائو بھی اپنے دماغ کا علاج کرائو، کبھی ہنس مادہ جنس بھی الو مادہ کے جنس میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ تم اور جنس کے ہو ہم اور جنس کے ہیں۔ بہرحال الو اپنی بات پہ اڑا رہا اور کہنے لگا یہ میری مادہ الو ہے آپ جائیں۔ بڑھتے بڑھتے معاملہ گائوں کی پنچایت تک چلا گیا۔ پنچایت نے دونوں کا معاملہ سنا اور اس الو کے درخت جس پہ وہ بیٹھا تھا کے پاس گئے، ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا ایک بات تو سچ ہے یہ مادہ ہنس ہے اور اس کی جنس بھی ہنس کی ہے، الو کی نہیں ہے، پھر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کرنے لگے کہ بہرحال کچھ بھی ہو یہ الو ہماری آبادی کا ہے، ہمارے گائوں کا ہے، ہمیں اس کا حمایت کرنی چاہیے، یہ کسی وقت بھی ہمارے کام آ سکتا ہے۔ لہذا پنچایت نے فیصلہ کیا کہ الو حق پہ ہے اور مادہ اسی کی ہے۔ لہذا مادہ ہنس اسی کو دی جائے اور ہنس کو یہ کہا گیا کہ آپ چلے جائیں، آپ حق پہ نہیں ہیں۔ پنچایت یہ فیصلہ کر کے جب چلی گئی تو الو نے نر ہنس کو کہا دیکھو اب تم سمجھ گئے ہو گے یہ نحوست میری وجہ سے نہیں ہے۔ لہذا اپنی مادہ ہنس پکڑو اور یہاں سے چلے جائو۔
اسلام ہمیں کسبِ حلال کی تعلیم دیتا اور حرام مال خواہ کسی بھی ذریعے سے کمایا جائے، اسے ناجائز اور جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے، جس سے اجتناب ایمان اور بندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں وہ کرپشن جیسے موذی مرض سے بچائے اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے آمین!۔

جواب دیں

Back to top button