زمین گرم کرنے کا وقت؟

تحریر : سیدہ عنبرین
حکومت لاکھ کہے پی ٹی آئی کے تین روزہ احتجاج سے اس کا کچھ نہیں بگڑا لیکن پھولی ہوئی سانسیں ابھی تک بحال نہیں ہوئیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ملک میں موجود غیر ممالک کے سفیر حضرات کو ایک چھت تلے جمع کر کے حال دل سنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، نئی پریشانی آخری کارڈ کے اعلان نے پیدا کر دی ہے، حسب سابق کوششیں کی جائیں گی کہ پہلے یلو کارڈ، پھر ریڈ کارڈ اور پھر آخری کارڈ کی بات کی جائے۔ اس تصور کے پیچھے نیک نیتی ہو تو اس خواہش میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اسی چیز کا فقدان ہے جو معاملہ کسی طرف لگنے نہیں دیتا۔ آخری کارڈ سے قبل شہدائے سانحہ اسلام آباد کے ورثا کو پشاور بلا کر دنیا کے سامنے کرنا، جو زخمی سفر کرنے کی پوزیشن میں ہیں ان پر بیتی ان کی زبانی دنیا کو سنانا ایسا فیصلہ ہے جو اسلام آباد سرکار کو یقیناً پسند نہیں آئے گا۔ یہ اجتماع پشاور میں ہو رہا ہے، پس سب کچھ بس سے باہر ہے، انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کرنے کیلئے یا ذاتی طور پر سیاسی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اس اجتماع میں شریک ہو سکتے ہیں، اس کے بعد آخری کارڈ کے حوالے سے اعلان سامنے آ سکتا ہے۔
ہمشیرہ خان علیمہ کی طرف سے ڈراپ سائٹ نیوز کے نمائندے ریان گریم کو انگریزی میں دیئے گئے انٹرویو کا بہت چرچا ہے، علیمہ خان صاحبہ اس سے قبل اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتی نظر آتی تھیں، یہ گفتگو عموماً چند منٹ پر محیط ہوا کرتی ہے، لیکن مذکورہ انٹرویو میں انہوں نے اپنا مقدمہ، اپنے بھائی اور پی ٹی آئی کا مقدمہ جس انداز میں مغربی میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے، اس سے ایک طرف تو ان کی سیاسی بلوغت کھل کر سامنے آئی ہے، دوسری طرف ان کی انگریزی زبان میں روانی کے ساتھ اپنا ماضی الضمیر کھل کر بیان کی صلاحیت سے پارٹی کارکن اور لیڈر خوشگوار حیرت سے پسندیدگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ پارٹی میں موجود بعض رانگ نمبرز کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل میں بھی وہ غیر ملکی میڈیا کے ساتھ باقاعدگی سے بات کرتی نظر آئیں گی، پی ٹی آئی میں اس بات کی کمی کو عرصہ دراز سے محسوس کیا جا رہا تھا، جو اب کسی حد تک پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو بذات خود غیر ملکی میڈیا کے ساتھ بات کیا کرتی تھیں۔ مسلم لیگ ن میں کوئی ایسا مرد یا خاتون موجود نہ تھیں جو پارٹی کے اقتدار سے نکالے جانے پر غیر ملکی میڈیا کے ساتھ روابط رکھتے اور پارٹی موقف دنیا کے سامنے پیش کرتے، عرصہ دراز تک سینئر صحافی معروف سیاستدان، سینیٹر مشاہد حسین سید یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ن لیگی رہنمائوں جناب نواز شریف اور شہباز شریف نے ایک آدھ مرتبہ کسی غیر ملکی صحافی سے انگریزی میں گفتگو کی، لیکن ان کے اس قسم کے انٹرویو نہ ہونے کے برابر ہیں، جو ہیں وہ کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔ جناب نواز شریف نے ایک غیر ملکی خاتون صحافی کو انٹرویو دیا، جس نے بعد ازاں کہا کہ اس انٹرویو کے بعد پاکستانی سابق وزیراعظم کی طرف سے انہیں ایک بیش قیمت موبائل فون سیٹ بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی گئی، خاتون صحافی نے الزام لگایا کہ انہیں دوستی کی پیشکش کی گئی، اس الزام کا ن لیگی رہنما کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔ جناب نواز شریف کے صاحبزادے نے ایک غیر ملکی صحافی کو انگریزی میں انٹرویو دیا، جو ان کی لندن جائیدادوں کے حوالے سے تھا، صحافی کے تابڑ توڑ سوالات نے حسن نواز کو پریشان کئے رکھا، لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے ہونٹوں سے ادا ہوتے رہے، اس انٹرویو نے ان کی پوزیشن کو کمزور کیا، وہ یہ انٹرویو نہ دیتے تو ان کا بھرم قائم رہتا۔ موجودہ چیف منسٹر پنجاب نے آج تک انگریزی میں کوئی انٹرویو نہیں دیا، وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد کسی ٹی وی چینل کے میزبان کے مقابل نہیں بیٹھیں۔ چیف منسٹر بننے سے قبل ان کے پسندیدہ شخصیات کے ساتھ پوڈ کاسٹ ہیں، ان میں بھی وہ بہت زیادہ پر اعتماد دکھائی نہ دیں، دوران گفتگو مختلف ثبوتوں نے ان کے موقف کی نفی کی، وہ تقریر کرنے کیلئے جب بھی روسٹرم پر آتی ہیں، ان کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں ان کے باقی ہاتھ سے کافی فاصلے پر رہتی ہیں، ہاتھ اور انگلیوں کا یہ فاصلہ ان کی شخصیت، ان کے مزاج، خاص عادات اور ذہنی کیفیت کی کہانی سناتا ہے۔ جیسے علم الابدن پر دسترس رکھنے والے سینئر صحافی ناصر شیرازی کبھی کبھی بیان کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری برطانیہ میں زیر تعلیم رہے انہیں انگریزی زبان و بیان پر مہارت حاصل ہے، انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا تو اس تجربے نے انہیں بہت کچھ دیا۔ انہوں نے دنیا کے اہم ترین ڈپلومیٹ کے ساتھ درجنوں ملاقاتیں کیں، وقت کے ساتھ ساتھ انہیں گفتگو اور مذاکرات کے آرٹ میں مزید مہارت حاصل ہو گی، وہ اپنی پارٹی کیلئے اثاثہ ثابت ہوں گے۔
شیخ رشید صاحب گوشہ نشینی کے بعد متحرک ہوئے ہیں، انہوں نے اڈیالہ میں خان سے ملاقات کی ہے، انہیں گلے لگایا گیا ہے۔ شیخ رشید گیٹ نمبر چار سے دوری کے غم میں مبتلا ہیں، یہ پوزیشن اپنی صلاحیتوں کے زور پر فیصل واوڈا نے ان سے چھین لی ہے۔ کبھی شیخ رشید ٹی وی سکرینوں کی رونق ہوا کرتے تھے، اب لوگ غور سے سنتے ہیں فیصل واوڈا کیا کہہ رہے ہیں، ان کی گفتگو اور پیش گوئیوں سے ہوا کے رخ کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ فیصل واوڈا نے اچانک ن لیگ اور وفاقی حکومت کو نالائق اور نکٹھو کہنا شروع کر دیا ہے، اس سے یہ تو واضع ہو گیا کہ وہ کسی بھی مرحلے میں ’’ن‘‘ میں شامل نہیں ہو سکتے، پی ٹی آئی کو وہ چھوڑ چکے ہیں۔ ان کی تازہ ترین پسندیدہ شخصیت بلاول بھٹو زرداری ہیں، گمان ہے وہ اشارہ پاتے ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، کچھ ایسا ہی معاملہ شیخ رشید کا ہے، وہ عرصہ دراز تک پرویز مشرف کے ساتھ رہے، اس سے پہلے ن لیگ کا دم بھرتے رہے، اس کے بعد وہ تحریک انصاف کے اتحادی بن کر ایک سیٹ کے ساتھ وزیر رہے، اب وہ ن لیگ میں واپس جا نہیں سکتے، پی ٹی آئی نے انہیں کچھ فاصلے پر رکھ دیا ہے، کچھ عجب نہیں وہ بھی پیپلز پارٹی کو پیارے ہو جائیں گے، ان کی خواہش ہو گی کہ وہ پیپلز پارٹی کے اتحادی بن جائیں۔ جناب آصف زرداری کی شکل میں ایک مہربان ایسا موجود ہے جو ہر ایک کو گلے لگاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کچھ عرصہ قبل فرمایا تھا کہ وہ زمین گرم کر دیں گے، لگتا ہے وہ وقت آ گیا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے زمین گرم کرنے کا کہہ کر وہ اچانک خود ٹھنڈے پڑ جائیں، دنیا گرم زمین کی راہ دیکھتی رہ جائے۔