Columnمحمد مبشر انوار

دیوار گرے گی!!!

محمد مبشر انوار
صحیح محاورہ تو خیر ’’ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو ‘‘ کا ہے، لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں معاملات ’’ ہزارپا‘‘ کے ہاتھ میں ہیں اور ہر جگہ ہزارپا کے نقوش واضح ہیں، کیا عوامی دبائو دیوار گرا پائے گا؟ جبکہ اس سے پہلے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا واقعی یہ آخری دھکا بھی ہے اور کیا واقعی دیوار گرتی ہوئی نظر آ رہی ہے، جو آخری دھکے کی متحمل نہیں ہو سکتی؟۔ ریاستی طاقت اور ریاستی بیانیہ بہرطور عوامی دبائو سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے تاوقتیکہ عوام حقیقی معنوں میں اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں، قربانیوں کی داستان رقم کرنے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لیں، ریاستی و عوامی مفاد کو مقدم رکھیں اور سب سے بڑھ کر عوام کو ’’ مخلص و وفادار‘‘ قیادت میسر ہو، تو پھر ریاستی طاقت و دبائو و بیانیہ کسی کام نہیں آتا۔ تحریک پاکستان کے ہنگام ایسی ہی صورتحال تھی کہ بابائے قوم کے بے لوث و مخلص قیادت پر برصغیر کے مسلمانوں کو بھرپور اعتماد تھا اور پوری قوم ان کے پیچھے متحد ہو چکی تھی، جس کے باعث نہ صرف انگریز بلکہ ہندوئوں کی تمام تر مکارانہ چالوں کو ناکام بناتے ہوئے، تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا، گو کہ بعد ازاں اس آزادی کو ’’ مقامی گوروں‘‘ نے ہتھیا لیا، جو آج تک اس سے ہزارپا کی مانند چمٹے ہوئے ہیں۔ تاہم اس دوران محترمہ فاطمہ جناح، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے طور پر ’’ حقیقی آزادی‘‘ کی کوششیں جاری رکھیں، لیکن وقت کے آمروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور وہ سب بتدریج افق سیاست سے عبرتناک انجام لے کر غائب ہو گئے۔ شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کی اولادیں البتہ اس سیاسی میراث کو سنبھالے رہیں اور کسی نہ کسی حد تک عوام میں مقبول رہیں تاہم بعد ازاں شیخ حسینہ واجد نے ہوس اقتدار یا انتقامی جذبے میں اپنی سیاست کو آمریت سے بھی بدتر کر لیا اور مخالفین کے لئے سانس لینا بھی محال کر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برسوں سے پکتا ہوا لاوا، حسینہ واجد کے غیر ضروری اعتماد کو چند ہفتوں میں ملیا میٹ کر گیا۔ آج حسینہ واجد کی حالت دنیا کے سامنے ہے کہ وہ کس طرح بھارت میں ایک بھگوڑی کی حیثیت سے قیام پذیر ہے جبکہ بنگلہ دیش کے عوام اور عبوری حکومت اس کی حوالگی کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی میراث محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد، بھٹو کی بنیادی سیاست سے کنارہ کش ہو چکی اور جو زبان بلاول نے 26ویں آئینی ترمیم کے دوران استعمال کی، اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کو عملا دفن کر دیا اور اب پیپلز پارٹی کی سندھ میں دیہی سیاست بھی آئندہ انتخابات میں ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے بشرطیکہ انتخابات صاف شفاف ہوئے۔
’’ ہزراپا‘‘ کے مضبوط پنجوں سے پاکستان کو آزاد کرانے کا عزم لئے اس وقت تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جدوجہد کر رہی ہے اور اس کی قیادت ماضی کے برعکس عمران خان کی اہلیہ اور اس کی بہنیں کر رہی ہیں تا کہ اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ ماضی میں جب بھی عمران خان نے ایسی جدوجہد کی کال دی، عوامی جوش و خروش کے باوجود، جدوجہد کی قیادت کرنے والے سمجھوتے کا شکار ہو گئے اور عین وقت پر جب قیام کی ضرورت رہی، وہ سجدے میں لیٹے نظر آئے اور کارکنوں کی ہمت کو توڑنے کا کردار ادا کرتے دکھائی دئیے۔ اس صورتحال کے پیش نظر عمران خان کے پاس اس تحریک کو منطقی انجام تک لانے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیا کہ وہ اپنی اہلیہ اور بہنوں کو اس احتجاج کی قیادت سونپے، جو بہرطور تحریک انصاف کی قیادت کے برعکس، عمران خان کے موقف پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گی، جس کا مظاہرہ کے پی سے آنے والے قافلے میں بشریٰ بی بی کی موجودگی سے ہوا۔ علی امین گنڈا پور کو کارکنوں نے اکیلے، قافلے سے الگ ہونے کی بھی اجازت نہیں دی اور انہیں وضو کرنے یا حاجت روائی کے لئے بھی اکیلے نہیں جانے دیا گیا۔ ایسی ہی صورتحال بیرسٹر گوہر اور دیگر پارٹی رہنمائوں کو درپیش ہے کہ حکومت اور مقتدرہ کی طرف سے سخت دبائو کے باوجود، وہ احتجاج کو ازخود ختم کرنے کا اعلان کرنے کے قابل نہیں رہے کہ حکومت اور مقتدرہ کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد انہیں اڈیالہ جیل جانا پڑا کہ اس کا حتمی فیصلہ بہرطور عمران خان نے کرنا ہے اور حکومتی مجبوری کا یہ عالم کہ کہاں حکومت عمران خان سے قوانین کے مطابق ملنے کی اجازت نہیں دیتی تھی اور اب یہ مصیبت کہ سب قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بیرسٹر گوہر، علی محمد خان اور غالبا شبلی فراز کو ملاقات کرائی گئی۔
عوامی دبائو اپنا اثر دکھا رہا ہے یا حکومت اور مقتدرہ ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے ساتھ کوئی کھیل کھیلنا چاہتی ہے؟ معاملہ جو بھی ہے، اس مرتبہ عمران خان ماضی کے برعکس ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہتے کہ جدوجہد لب بام آ کر ناکامی کا شکار ہوجائے، اس لئے حکومت اور مقتدرہ کی ہر رسائی کے جواب میں عمران خان اپنے بنیادی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لئے فوری طور پر تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنائے، جو ویسے بھی عدالتی کارروائی سے بریت و رہائی کے حقدار ہیں لیکن حکومتی چالیں اور اقدامات ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہاں ایک اہم بات یقینا قابل تعریف اور قابل ستائش ہے کہ عمران خان نے فقط اپنی رہائی یا بریت کی بات نہیں کی بلکہ اپنے سیاسی رفقاء کو رہائی و بریت کو فوقیت دی، عمران خان کا یہ عمل انہیں اپنے ہم عصر سیاستدانوں سے بالعموم جبکہ میاں نواز شریف سے بالخصوص ممتاز کر رہا ہے کہ جو ساتھ والی بیرک میں مقید غوث علی شاہ کو اسیری میں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ کسی سیاستدان کا یہ اپنے ساتھیوں و رفقاء کے لئے یہ عمل، اسے نہ صرف اپنے سیاسی ساتھیوں میں مقبول کرتا ہے بلکہ اس کے لئی عزت و احترام کے نئے افق پیدا کر دیتا ہے اور اس کے ساتھی اسے کسی بھی حالت میں تنہا نہیں چھوڑتے، البتہ پاکستانی سیاست میں مقتدرہ کے چھوڑے ہوئے ’’ جاسوسوں‘‘ کی بات الگ ہے کہ ان کی وفاداری ہمیشہ ایک فریق کے ساتھ رہتی ہے۔ اس وقت حکومتی زعماء اور اکابرین کی طرف سے وہی گھسی پٹی باتیں دہرائی جارہی ہیں کہ احتجاج میں صرف کے پی سے لوگ شامل ہوئے اور تحریک انصاف اپنی حکومت کے زور پر عوام کو ساتھ لائی، جبکہ پنجاب سے عوام نہیں نکلے اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہیں، حکومت کو شرم آنی چاہئے کہ جس طرح پنجاب کو یرغمال بنا رکھا ہے، پنجاب پولیس جس طرح شاہی خاندانوں کی فرمائش پر چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کئے ہوئے ہے، ذرا اس سخت پابندی کو ہٹا کر دیکھیں، نتائج آپ کو حیران و پریشان و ششدر کر دیں گے۔ صرف یہی نہیں اس حقیقت کا آپ کو بھی بخوبی علم ہے کہ پنجاب میں آپ کی جڑیں کس قدر باقی رہ چکی ہیں، اگر کوئی غلط فہمی ہوتو ریاستی مشینری کی بھرپور کوششوں کے باوجود آپ بھی چند ہزار لوگوں کو سڑکوں پر لاکر دکھا دیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔ بہرحال اس کا علم بھی آپ کو بخوبی ہے کہ کے پی کے قافلے میں صرف کے پی کے عوام شامل نہیں بلکہ اس میں جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب کے عوام بھی شامل رہے، جو غیر معروف راستوں سے اس بڑے احتجاجی قافلے کا حصہ بنے، مثلا زرتاج گل وزیر، شوکت بسرا اور صاحبزادہ حامد رضا، تمام تر رکاوٹوں، ظلم و جبر و فسطائیت کے باوجود، اپنے قافلوں سمیت اس احتجاج میں شامل ہوئے۔
بہرحال تادم تحریر وفاقی وزیرداخلہ کے تمام اقدامات بشمول شناختی کارڈ کی منسوخی، طلبہ کے تعلیمی مستقبل کی دھمکیوں کے علاوہ آزاد کشمیر کے شہریوں کو آئینی طور پر پاکستانی شہری تسلیم نہ کرنا ( جو بہرحال عالمی حوالے سے درست ہے) لیکن یقینی طور پر ایک غلط بیان ہے، جسے ہمارا دشمن استعمال کرے گا۔ جبکہ گزشتہ رات کو حکومتی زعماء اور مقتدرہ کی خواہشات کو زمین بوس کرنے پر تلے باہر سڑکوں پر موجود عوام پر براہ راست فائرنگ سے تحریک انصاف کے کئی کارکنوں کو ہلاک و شدید زخمی کر دیا گیا ہے۔ سیاسی احتجاج سے اس ذہنیت سے نپٹنے کو کبھی بھی قابل ستائش نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایک طرف حکمرانوں کی ہوس اقتدار کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی کمزور ترین موقف کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرز عمل سے یہ سمجھنا کہ گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا ہے، ابھی بھی جلد بازی ہو گی کہ ایسے کچھ عوامل پہلے بھی دیکھے جا چکے ہیں لیکن ہزارپا تاحال اپنی حدود میں جانے کو تیار نہیں کہ جنرل ایوب ؍ یحییٰ کے بعد یہ گمان تھا کہ اب ملک پٹری پر چڑھ چکا لیکن پھر ضیاء الحق اور بعد ازاں جنرل مشرف، اب پردہ سکرین پر نہ سہی پس پردہ تو موجود ہے لہذا یہ کہنا یا سمجھنا کہ دیوار کو آخری دھکا ہو سکتا ہے، ناقابل یقین ہے، کہ عمران خان کے بعد بھی عمران خان کی یہ سوچ برقرار رہ پائے گی؟۔

جواب دیں

Back to top button