Column

طلبہ یونین بحالی اک خواب

غلام العارفین راجہ
نظریاتی پوائنٹ
وطنِ عزیز پاکستان میں تمام شعبہ ہائے زندگی کی یونین بحال ہیں۔ ان کے باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ کامیاب اُمیدوار اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں یہ الگ بحث ہے کہ اختیارات کس حد تک ہوتے ہیں۔ خیر ریاست کا نصف حصہ طلبہ پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستقبل قریب میں اہم ریاستی عہدوں پر اپنے فرائض کی ادائیگی کرنی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ریاست کا اثاثہ بھی ہیں اور روشن مستقبل کی نوید بھی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طبقے کو ریاستِ پاکستان میں نہ کسی پلیٹ فارم پر نمائندگی دی جاتی ہے نہ ہی ان کے مسائل کو کوئی سننے کو تیار ہے۔ یہ طبقہ ریاستی توجہ سے محروم ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں اکثریت طلبہ یہاں پر مجبوری کے تحت تعلیم حاصل کرتے نظر آتے ہیں اپنی ڈگری مکمل ہوتے ہی بیرونِ ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ آج بھی کسی تعلیمی ادارے میں چلے جائیں وہاں یہی سوال کریں کہ آپ یہ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کیا کریں گے تو اُن میں سے اکثریت کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم بیرونِ ممالک میں ملازمت کے لئے جائیں گے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست اور طلبہ کے درمیان باہمی تعلقات نہ ہونے کے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہی مگر طلبہ کے حالات نہ بدلے۔ آج بھی طلبہ وہی نصاب پڑھ کر امتحان دے رہے ہیں جو آج سے کئی سال قبل اُن کے والدین نے پڑھا تھا۔ حالات تو یہ ہیں کہ اگر کوئی طلبہ علم اپنے تعلیمی ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرے یا تعلیمی ادارے کے مسائل پر آواز اٹھائیں تو اُس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ایسے حالات تک پہنچانے کی پہلی اور بنیادی وجہ طلبہ یونین میں پر لگی پابندی ہے جو اب تک ختم نہیں ہو سکی۔ 9فروری 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی۔ اقوامِ عالم نے دیکھا کہ جمہوری ملک میں جمہوریت کی نرسریاں بند کر دی گئی۔ طلبہ کو اُن کے بنیادی جمہوری حق سے محروم کر دیا گیا۔ جس کے بعد حکومتیں آتی اور جاتی رہی۔ وعدوں اور دعووں کی نہ ختم ہونے والی رات کی اب تک صبح نہ ہو سکی۔ البتہ اس سارے عمل میں طلبہ کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے ضرور استعمال کیا جاتا رہا جو اب بھی جاری ہے۔ آج آپ ملک کی جس بھی سیاسی جماعت کو دیکھیں گے اُس کا سٹوڈنٹ ونگ تو ہو گا البتہ اُن کے مسائل کے حل کے لئے پارٹی کی خدمات صفر نظر آتی ہیں۔ طلبہ حقوق صرف منشور کی حد تک نظر آتے ہیں۔ ملک میں موروثی قیادت کئی قابل لوگوں کو آگے ہی نہیں آنے دے رہی ہے۔ طلبہ یونین سے نئے قائدین تیار ہوتے ہیں۔ جو اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے ملکی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس سے ریاست اور طلبہ کے درمیان باہمی تعاون میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ طلبہ یونین پر پابندی ہونے کی وجہ سے طلبہ کو کسی پلیٹ فارم پر نہ تو سنا جاتا ہے نہ ہی اُن کے مسائل کے حل ہوتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ طلبہ کی رائے بھی لینا گوارہ نہیں کیا جاتا۔ ہر کچھ عرصے بعد تھوڑی اُمید دلائی جاتی ہے کہ طلبہ یونین بحال ہونے جا رہی ہے جبکہ یہ تمام چیزیں صرف کہنے اور سننے کی حد تک محدود ہیں۔ حالیہ چند برس میں کچھ تعلیمی اداروں میں غیر تنظیمی کونسل کے انتخاب کا آغاز تو اچھا ہے مگر نو منتخب طلبہ قیادت کی تعلیمی اداروں میں شنوائی نہیں ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں طلبہ یونین بحالی اک خواب ہے جس خواب کی تکمیل ریاست کے وسیع تر مفادات کے لئے ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button