ColumnTajamul Hussain Hashmi

بعض مرتبہ فتح ذلت کا باعث بن جاتی ہے

تحریر: تجمل حسین ہاشمی
یہ 1986ء کی بات ہے جب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان میچ ہو رہا تھا۔ آخری بال پر نیوزی لینڈ کو چھ رن چاہئے تھے۔ کپتان گریگ چیپل نے اپنے چھوٹے بھائی ٹریو ور چیپل جو اوور کی آخری بال کروا رہا تھا۔ دونوں بھائیوں نے جیت کا پلان بنایا۔ ان کو اپنی ہار کا ڈر بھی تھا کیوں کہ سامنے والا بیسٹ چھکا مار سکتا تھا۔ آخری بال پر چھکا آسٹریلیا ٹیم کو شکست سے دو چار کر سکتا تھا ۔ دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ انڈر آرم بال پھنکی جائے۔ اس دور میں انڈر آرم بال پھنکنا غیر قانونی نہیں تھا۔ دنیا بھر کے تماشائی موجود تھے۔ جب انڈر آرم بال پھینکی تو بیٹس مین اس کو ہٹ کرنے میں ناکام رہا اس نے اپنا بیٹ دور پھنک دیا اور اس نے غیر اخلاقی بال کا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ یہ غیر اخلاقی بال نے سٹیڈیم میں خاموشی ڈال دی۔ آسٹریلین ٹیم خوش تھی کہ وہ میچ جیت گئے لیکن اس جیت کے بعد آج تک ٹریوور چیپل بھگت رہے ہیں۔ اس کو پوری دنیا سے تنقید کا سامنا ہے۔ آسٹریلوی قوم کو ایسی جیت پر شرمندگی ہونے لگی ۔ اس کے گھریلو تعلقات خراب ہونے لگے۔ میاں بیوی کے بیچ اس میچ کو لے کر اختلافات شدت اختیار کر گئے اور دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ ٹریوور چیپل کو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے پوری دنیا اس سے نفرت کرتی ہے ۔ اس کی بیوی نے کہا کہ میں ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جو کھیل میں دھوکہ دے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جیت اتنی اہم ہے کہ بندہ اس کیلئے اپنا آرام سکوں اور ضمیر کا سودا کر بیٹھے۔ بعض دفعہ فتح قانونی طور پر جائز بھی ہو لیکن اخلاقی تقاضوں کے منافی ہوتی ہے جس کو ضمیر والی قومیں قبول نہیں کرتی ۔اخلاق کی ان کے ہاں بہت اہمیت ہے۔آج ہماری سیاست ، سماجی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ عمران خان نے قوم کو نئے بیانے کے پیچھے لگایا ، حقیقی آزادی کا نعرہ لگایا ۔یوںکہہ لیں کہ عمران خان نے دو بری سیاسی جماعتوں کو گرائونڈ کر دیا ۔ قوم ماضی کی حکومتوں کی کرپشن سے تھک چکی ہے ، وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ پھر خان کو حکومت ملی جس طرح تحریک عدم اعتماد لائی گی، سب کے سامنے ہے۔ خان گھر چلا گیا۔ خان کے فیصلے نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس دی۔ خان نے توشہ خانہ سے گھڑی خرید کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر دی ، اس سے پہلے بھی توشہ خانہ پر وار ہوئے لیکن قوم بے خبر تھی۔ مخالف جماعتوں کو موقع مل گیا ، میڈیا کو انگیج کیا ۔ خان کو وضاحت دینی پڑی ۔ عدالتوں کے فیصلے بھی قوم کے سامنے ہیں ۔ اس کے بعد کی صورت حال سب کے سامنے ہے ، بات ختم نہیں ہوئی پھر 8 فروری کو الیکشن ہوئے ، فارم 47قوم کی سامنے آیا لیکن لوگ اس جیت کو آج تک تسلیم نہیں کرتے۔ شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے ، لیکن اخلاقی معیار ختم ہو گیا ، الیکشن کی جیت کا فیصلہ تو ن لیگ کے حق میں آیا ۔ لیکن اخلاقیات ختم ہوگئی ۔ 24نومبر کو ملک کی زیادہ تر شاہرائیں بند رہیں، انٹر نیٹ بند ہے ، حکومت اپنی رٹ قائم رکھنے کیلئے ایکشن کر رہی ہے اور دوسری طرف خان کے جیالے لڑنے کیلئے تیار ہیں ، کیا ملک ایسی غیر اخلاقی فیصلوں سے آگے بڑھ سکے گا ، یقینا ایسا ممکن نہیں جب تک معاشرتی رویوں میں اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا جائے گا ۔ جیت سے کچھ حاصل وثوق نہیں ہو گا ۔ قوم مزید تقسیم کا شکار ہو گی ، آج میاں نواز شریف اور اس کی فیملی کو کتنی مشکلات کا سامنا ہے ۔ سکون اطمینان کے ساتھ سفر نہیں کر سکتے ، صرف دو الفاظ ان کو سکون دے سکتے تھے ۔ وہ تسلیم کر کے آگے بڑھ جاتے۔ الیکشن کی تیاری کرتے ۔ اس فیصلے سے ان کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہوتا ۔ جہاں عمران خان کی بات ہے تو ان کو بھی اخلاقی قدروں کا خیال رکھنا ہو گا۔ لڑائی جھگڑے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ غیر اخلاقی فیصلے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کر رہے ہیں ۔ یہ عمل صرف عمران خان یا بشریٰ بی بی پر لازم نہیں دوسری جماعتوں اور خاص کر اداروں پر زیادہ وزن ہے ، ان کو حق پر فیصلے کرنے ہیں، ان کو اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔ اگر فیصلوں میں انا شامل رہی تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، سب کچھ افراتفری کی نظر ہوتا چلا جائے گا ۔ ملک لاقانونیت کی فضا کا شکار ہوتا جائے گا ۔

جواب دیں

Back to top button