CM RizwanColumn

 ماحولیاتی آلودگی، بے تکے حکومتی اقدامات  

تحریر: سی ایم رضوان
سموگ کا عذاب ایک طرف اور سموگ کے خلاف بے تکے اور ہر چیز بند کر دو کی پالیسی پر مبنی جبری حکومتی اقدامات دوسری طرف اس ساری صورتحال نے عوام و خواص کو شدید عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک طرف سکول بند کر دیئے جاتے ہیں تو دوسری طرف کئی ایک صنعتی یونٹ بند کر دیئے گئے ہیں۔ خاص طور پر پیپر انڈسٹری جو پہلے ہی زوال اور تباہی کا شکار تھی اس کو بھی بوجہ سموگ جزوی طور پر بندش اور یکطرفہ طور پر جبری کارروائیوں کا سامنا ہے ۔ اس سلسلے میں معروف صنعت کار عرفان شاہد اور معروف قانون دان شاہد میو ایڈووکیٹ سے گزشتہ دنوں ایک تفصیلی نشست ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں من حیث القوم ہمارا اپنا کردار اس قدر سفاک ہے کہ کراچی کے ساحل سمندر پر کوڑے کے ڈھیر پچھلی کئی دہائیوں سے مسلسل سمندری حیات کے لئے قاتل ثابت ہو رہے ہیں مگر کوئی روک ٹوک سامنے نہیں آ رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو پورا پاکستانی معاشرہ ایک ہمہ جہت زوال کی طرف گامزن ہے۔ آپ کسی بھی سماجی شعبے پر نظر ڈالیں تو وہ ایک نئی پستی کو چھوتا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری قوم سے احساس زیاں مفقود ہو گیا ہے۔ خاص طور پر اگر ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی طرف دیکھا جائے تو عوام میں اس کے بارے میں قطعی کوئی آگاہی نہیں۔ عام طور پر اسے کچھ احمقوں کی ذہنی اختراع سمجھا جاتا ہے۔ اشرافیہ اور عوام ان حقائق سے صرفِ نظر کر رہے ہیں کہ ماحولیاتی پامالی سے صرف موسمی تبدیلیاں ہی نہیں واقع ہو رہیں بلکہ اس کی وجہ سے غربت میں اضافہ، قحط سالی، بیماریوں میں اضافہ، جنگیں، انسانی حقوق کی پامالی اور عالمی امن و امان کو مسائل درپیش آ رہے ہیں۔ پاکستان کی اس مسئلے کے بارے میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی نظر اندازی ہماری ماحولیاتی پامالی میں بہت بڑے اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نقصان میں قحط سالی سے زرعی زمین میں کمی اور اس کا غیر زرعی استعمال، مناسب پانی کی کمی، صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل، جنگلات کا کٹائو، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات شامل ہیں۔ اب تو یہ صورتحال اس قدر بگڑنے لگی ہے کہ یہ  پاکستانی عوام اور معیشت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ معاشی اور سماجی وجوہات کی وجہ سے دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی نے بھی پاکستان میں ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بڑی تعداد میں نقل مکانی نے شہروں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو آباد کر دیا ہے، جس نے شہری ڈھانچے اور سہولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی شہری آبادی سے بھی فضائی آلودگی اور صحت و صفائی کے خطرناک مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ فضائی آلودگی نے بڑے شہروں میں صحت کے پہلے سے ناپید خطرناک مسائل کو جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضر صحت دھند یعنی سموگ اب بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی اور سموگ نے صحت کے مسائل کے علاوہ کاروبار زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈیزل والی گاڑیاں، دو سٹروک انجن والے موٹر سائیکل اور رکشوں کے استعمال سے بڑھتی ہوئی صحت کے لئے نقصان دہ کاربن کی فضا میں ہمہ وقت موجودگی کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی تعمیرات اور نئی ہاسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے اینٹوں کے بھٹوں کا بڑھتا ہوا استعمال اور کوڑا جلانے سے فضا میں مضر صحت گرد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
شاہد میو ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 2025ء تک پاکستان کی آبادی تقریباً 23کروڑ 40لاکھ تک پہنچ جائے گی جس کا مطلب ہے کہ بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس عرصے میں تقریباً 30لاکھ مزید گاڑیاں بشمول موٹر سائیکلیں اور رکشے سڑکوں پر موجود ہوں گے اور موجودہ سطح سے آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ آبادی کے بڑھنے سے ہمارے پانی کے ذخائر پر بھی برا اثر پڑے گا اور ان میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ ان کی آلودگی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں میں نقل مکانی سے ٹھوس فضلے میں بھی سنگین اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں کبھی بھی سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی اور ٹھوس فضلے کو ختم کرنے کے جدید طریقوں پر کم ہی انحصار کیا گیا ہے۔ عموماً ہمارے ہاں ٹھوس فضلے ( سالڈ ویسٹ) کو جلا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہوائی آلودگی میں اضافہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح صنعتی فضلہ بھی بغیر کسی صفائی کے دریاں میں بہا دیا جاتا ہے یا کھلی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ آخر کار ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر میں شامل ہو کر انہیں بھی آلودہ کر دیتا ہے۔
پاکستان کو موسمی تبدیلی سے بھی بہت سے خطرے لاحق ہیں۔ یہ خطرات ہمارے جغرافیائی محل وقوع، بہت بڑی آبادی اور کم تکنیکی مہارت کی وجہ سے مزید مہلک ہو گئے ہیں۔ صنعت کار شاہد عرفان نے کہا کہ ہمارے جنگلات کے کٹائو سے قدرتی آفات کے نقصانات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ جیسے جیسے ہماری ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں بھی غیر معمولی اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ گو یہ اضافہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے مگر اس میں جلد خطرناک اضافے کا خدشہ ہے۔ اسی موسمی تبدیلی کی وجہ سی پچھلے سال ہمارے جنگلات میں آگ لگنے کے سیکڑوں واقعات پیش آئے جن سے بیش قیمتی جنگلات ضائع ہوئے ہیں۔  اس موسمی تبدیلی کی وجہ سے ہم جلد قحط سالی اور سیلابوں سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس موسمی تغیر کی وجہ سے ایک تحقیق کے مطابق 2100تک ہمارے ہاں درجہ حرارت میں تقریباً 7.2ڈگری درجے تک اضافہ ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف زرخیز زمینوں کے بنجر ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ کچھ علاقوں میں تو شاید رہنا بھی ممکن نہ رہے۔ یہ تمام موسمی تبدیلیاں ہماری معیشت کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، خاص طور پر پانی کے وسائل، توانائی، صحت اور زرعی پیداوار اس کے خاص شکار ہو سکتے ہیں۔
 حکومتی سطح پر ان بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک تفصیلی پروگرام 2013ء کے اقتصادی سروے میں بیان کیا گیا ہے مگر حکومتوں کو اپنے سیاسی اللوں تللوں سے فرصت ملے تو وہ اس نوعیت کے کام کریں۔
 موسمی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک سنجیدہ اور بھرپور کوشش پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نے ایک ارب درخت لگانے کی مہم سے شروع کی تھی لیکن افسوس کہ یہ صرف تقریروں اور میڈیا میں پوائنٹ سکورنگ کی حد تک محدود رہی اور عملاً اس مہم میں کافی بے ضابطگیاں ہوئیں لیکن اگر یہ مالی کرپشن سے محفوظ رہتی تو یہ ایک قابل ستائش کوشش تھی کیونکہ اس بھرپور مہم کے باوجود خیبر پختونخوا کے جنگلات والے علاقوں میں آپ کو درختوں کی بیدردی سے غیر قانونی کٹائی ہوتی ہوئی اب بھی نظر آتی ہے۔ صنعت کار عرفان شاہد نے کہا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس مہم کے ساتھ ساتھ ان جنگلات کی زیادہ موثر طریقے سے نگرانی بھی کی جاتی۔ اسی طرح گو ہمارے ہاں موسمی تبدیلی سے متعلق کافی ادارے قائم کیے گئے ہیں مگر ان کی کارکردگی ہمیشہ توقعات کے برعکس رہی ہے۔ موسمی تبدیلی اور اس سے متعلقہ مسائل پاکستان کے لئے ایک وجودی خطرہ ہے اور ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ایک مربوط منصوبے کا آغاز کریں۔
واضح رہے کہ فضائی آلودگی کے باعث ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ستر لاکھ اموات واقع ہوتی ہیں اور معیشت کو پچاس کھرب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، گلے اور سانس کی بیماریوں، فالج اور آنکھوں کی بیماریوں کی بنیادی وجہ بھی فضائی آلودگی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان سات ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی دو اعشاریہ چار فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور آبادی کے بڑھنے کا براہ راست اثر ماحولیات پر بھی ہو رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ماحولیات کے حوالے سے دو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اول، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں اور جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔
 یہ ٹھیک ہے کہ 2030ء تک پاکستان ساٹھ فیصد بجلی قابل تجدید وسائل سے حاصل کرے گا۔ پاکستان درخت لگانے کا عمل شروع کر کے جنگلات کا تحفظ یقینی بنا رہا ہے۔ پاکستان نے پودوں کی دیکھ بھال سے لے کر جنگلات کی حفاظت تک پچاسی ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا کیں اور پانچ ہزار نوجوانوں کو نیچر گارڈین کے طور پر تیار کیا ہے۔ پاکستان گرین سپیس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اب تک  15نئے نیشنل پارک بنانے میں ایک سو اسی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان نے پانچ سو ملین ڈالر کے یورو بانڈز جاری کیے ہیں جو کہ گرین سپیس کو مالیاتی ویلیو فراہم کریں گے۔ کلین اینڈ گرین پاکستان میں مختلف سرگرمیاں شامل ہیں جیسے درخت لگانا، عوامی مقامات کی صفائی، پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنا اور ری سائیکلنگ کو فروغ دینا۔ حکومت نے لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لئے بھی ملک گیر بیداری مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ حکومت کی یہ کاوشیں اپنی جگہ لیکن ہر سال سموگ سے بچائو کے نام پر عوام  و خواص کو جس عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے اور صنعت و حرفت پر جو بیجا پابندیاں لگائی جاتی ہیں یہ ناقابل برداشت اور ناجائز اقدامات ہیں۔

جواب دیں

Back to top button