آزادی مفت میں نہیں ملتی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
غزہ کی سرزمین آج انسانی تاریخ کے بدترین المیے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یہاں کے باسیوں پر زمین پر جینا تنگ کردیا ہے، جہاں ہر گزرنے والا لمحہ خوف، بھوک، اور موت کی گونج سے بھرپور ہے۔ اسرائیلی بمباری نے اس مختصر سے علاقے کو کھنڈر میں بدل دیا ہے، جہاں 43922فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں بچے معصوم چہرے، وہ ننھے ہاتھ جو کھلونے تھامنے کے لیے بنے تھے، آج خون میں لت پت ملبے تلے دبے پڑے ہیں۔ ماں کی گود خالی ہو چکی ہے، باپ کی آنکھیں اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے وقت پتھرائی ہوئی ہیں۔ دنیا کا ضمیر خاموش ہے، جیسے یہ منظر کسی اور سیارے پر ہو رہا ہو۔ لیکن اس کے باوجودکہ غزہ کی زمین، جو برسوں سے خون سے سرخ اور ملبے سے ڈھکی ہوئی ہے، آج بھی ایک غیر معمولی حوصلے اور جرات کا مظہر ہے۔ اسرائیل کی تمام تر سفاکیت، بربریت، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود فلسطینیوں کے عزم کو شکست نہیں دی جا سکی۔ یہ وہ قوم ہے جو نہ صرف ظلم کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے بلکہ اپنے ایمان، ثقافت، اور آزادی کی جنگ میں ایک ناقابل شکست قوت کے طور پر دنیا کے سامنے کھڑی ہے۔ ہر گزرنے والا دن فلسطینیوں کے حوصلے کو مزید مضبوط کرتا ہے اور ان کی مزاحمت کو نئی توانائی بخشتا ہے۔
غزہ کے 23لاکھ لوگ، جن کی اکثریت پہلے ہی بے گھری کا شکار ہے، آج زندہ لاشیں بن چکے ہیں۔ وہ اپنے گھر، اپنی زمین، اور اپنے خاندان کھو چکے ہیں۔ سردی کا موسم سر پر ہے، لیکن نہ ان کے پاس کپڑے ہیں، نہ کھانا، نہ چھت۔ اسرائیلی حملوں نے ہر پناہ گاہ کو نشانہ بنایا ہے، کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔ معصوم بچے جنہیں سکول جانا چاہیے تھا، آج موت کی گنتی کا حصہ بن چکے ہیں۔ غزہ کے اسپتال بھرے ہوئے ہیں، لیکن دوائیں ختم ہو چکی ہیں۔ زخمی بغیر علاج کے دم توڑ رہے ہیں، اور دنیا ان کی چیخوں پر کان بند کیے بیٹھی ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اعتراف کیا کہ غزہ کی صورتحال تصور سے بھی بدتر ہے، لیکن یہ الفاظ ان انسانوں کی زندگی بہتر نہیں بنا سکتے جنہیں روز بمباری کے سائے میں جینا پڑتا ہے۔ امداد کا مطالبہ تو کیا جا رہا ہے، لیکن عملی اقدامات کہاں ہیں؟ دنیا کے طاقتور ممالک اپنے مفادات کے تحت خاموش ہیں، اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، اور انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ یہ عالمی برادری کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے، ایک ایسی ناکامی جو نسلوں تک یاد رکھی جائے گی۔اسرائیلی جارحیت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر بمباری، محاصرے، اور نسل کشی کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کا مقصد صاف ظاہر ہے، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا، ان کی شناخت کو مٹانا، اور انہیں ایک مظلوم اور شکست خوردہ قوم میں تبدیل کرنا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ فلسطینی عوام نے کبھی اسرائیلی ظلم کو قبول نہیں کیا۔ وہ نہ تو اپنے حق سے دستبردار ہوئے ہیں، نہ ہی اپنی زمین اور شناخت کو چھوڑنے پر راضی ہوئے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کی غیر متزلزل مزاحمت اور ایمان کی طاقت ہے جو آج بھی اسرائیل کے ہر منصوبے کو ناکام بنا رہی ہے۔
غزہ کی گلیاں، جو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں، ان میں آج بھی فلسطینی بچے آزادی کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین شہید ہو چکے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے، لیکن ان کے چہرے خوف سے عاری ہیں۔ یہ بچے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ فلسطینی نسل کبھی ہار ماننے والی نہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو کر پتھروں سے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں، اور یہ وہ خواتین ہیں جو اپنے شہید شوہروں اور بچوں کو دفناتے وقت بھی آزادی کے خواب آنکھوں میں سجائے رکھتی ہیں۔ مسلم دنیا کا حال اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ وہ ممالک جن کے پاس وسائل اور طاقت موجود ہے، اپنی انا اور مفادات کے غلام بن چکے ہیں۔ ان کے ایوانوں میں غزہ کی چیخیں نہیں گونجتیں ۔ ان کے سربراہ وہ منظر دیکھ کر بھی آنکھیں موند لیتے ہیں جہاں ایک باپ اپنے بچے کی لاش کو گلے لگائے بیٹھا ہے۔ کوئی سفارتی اقدام نہیں، کوئی عملی قدم نہیں، صرف بیانات کی حد تک ہمدردی کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ ان کا نمبر نہیں آئے گا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو وہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
غزہ کی صورتحال ہمیں صرف فلسطین کی نہیں، بلکہ انسانیت کی مجموعی شکست کا آئینہ دکھا رہی ہے۔ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا دنیا کے طاقتور ممالک اور امت مسلمہ کی غیرت جاگے گی؟ یا ہم سب اس تباہی کے گواہ بن کر تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے؟ یہ سوال ان بچوں کی آنکھوں میں لکھا ہے جو اپنی ماں کی گود میں بھوک سے بلک رہے ہیں، ان نوجوانوں کے لبوں پر ہے جو آزادی کے خواب آنکھوں میں لیے قبروں میں اتر رہے ہیں، اور ان بوڑھوں کی دعائوں میں چھپا ہے جو اپنی زندگی کا ہر خواب خاک میں بدلتے دیکھ رہے ہیں۔ عالمی برادری کی خاموشی کے باوجود، فلسطینی دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ ظلم کے خلاف مزاحمت ایک فطری حق ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت، جدید ہتھیار، اور عالمی حمایت کے باوجود وہ اس مزاحمت کو مٹا نہیں سکا۔ فلسطینیوں کا جذبہ آزادی ایک ایسی آگ ہے جسے نہ بمباری بجھا سکتی ہے، نہ محاصرہ اور نہ ہی موت کی دھمکیاں۔
فلسطینیوں کی مزاحمت صرف ایک مسلح جدوجہد تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ثقافتی، مذہبی، اور قومی بیداری کی تحریک بن چکی ہے۔ غزہ میں ہر گھر، ہر مسجد، اور ہر سکول اسرائیلی جارحیت کے باوجود ایک زندہ مثال ہے کہ آزادی کی تڑپ کبھی دبائی نہیں جا سکتی۔ فلسطینیوں کا قلم، ان کی شاعری، ان کی دعائیں اور ان کے عزم کا ہر اظہار اسرائیل کی ناکامی کی کہانی سناتا ہے۔ آج فلسطین یہ سکھا رہا ہے کہ ایمان، عزم، اور قربانیوں کے ذریعے بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دی جا سکتی ہے۔ وہ ہر روز اپنی جانوں کی قربانی دے کر یاد دلاتے ہیں کہ آزادی مفت میں نہیں ملتی، بلکہ یہ ایک قیمت مانگتی ہے، اور فلسطینی اس قیمت کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی قربانیاں صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے ایک سبق ہیں کہ ظلم کے سامنے خاموشی جرم ہے۔