Column

منڈی بہائوالدین میں ثقافتی ورثہ کی تاریخ و انکشافات

ندیم اختر
منڈی بہائوالدین صوبہ پنجاب کا ایک اہم ضلع ہے جو نہ صرف اپنی زراعت اور معاشی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے بلکہ ایک گہری ثقافتی ورثے کا حامل بھی ہے۔ یہاں کی موجودہ ثقافت اور قبل مسیح کی تہذیب دونوں نے اس خطے کو ایک منفرد شناخت دی حالیہ دور میں منڈی بہائوالدین ایک روایتی اور جدید ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں کے لوگ زراعت سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، اور یہ شعبہ ان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ چاول، گندم اور گنا یہاں کی مشہور پیداوار ہیں۔ یہاں کے دیہاتوں میں زندگی سادہ اور روایتی ہے، جبکہ شہر کے لوگ زیادہ جدید طرز زندگی اپنائے ہ ہوئے ہیں۔ مختلف ہائوسنگ سوسائٹیز کا جال بھی بچھ رہا ہے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو رسم و رواج میں مہمان نوازی اور خاندانی نظام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ عیدین، شادی بیاہ اور دیگر مواقع پر روایتی لباس اور روایتی کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہر حال کہیں کہیں جدت پسندی کا رجحان بھی ملتا ہے۔
منڈی بہائوالدین کا خطہ قدیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ تحقیق اور آثار قدیمہ کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ علاقہ قبل مسیح دور میں گندھارا، کوشان اور گپتا سلطنتوں کا حصہ رہا ہے۔ یہاں سے دریافت ہونے والے سکوں، مٹی کے برتنوں اور دیگر نوادرات نے ان تہذیبوں کی موجودگی کا واضح ثبوت دیا ہے۔ کوشان دور میں یہ علاقہ ایک اہم تجارتی مرکز تھا، جہاں سے ریشم، مصالحے اور دیگر اشیا کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ بدھ مت کی موجودگی کے آثار بھی یہاں سے ملے ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ علاقہ روحانی اور مذہبی سرگرمیوں کا منبع رہا ہے۔ اس دور کی تعمیرات کے نشانات آج بھی خال خال نظر آتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں آج بھی شعوری یا لاشعوری پر موجودہ و قدیمی تہذیبی امتزاج محسوس ہوتا ہے قدیمی تہذیبوں سکیتھیین کا دور یہاں کے خطے کے لیے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔ جس کے بادشاہ ازیسز اول کے سکے منڈی بہائوالدین سے حال ہی میں دریافت ہوئے ہیں
ازیسز اول کا تعلق سکیتھیین یا ساکا قبیلے سے تھا، جو وسطی ایشیا کے خانہ بدوش اور جنگجو قبائل میں سے تھا۔ سکیتھیین قبائل وسطی ایشیا سے نکل کر ایران اور شمالی ہندوستان کی طرف پھیلے ہوئے تھے۔ یہ قبائل خاص طور پر تیر اندازی اور گھڑ سواری میں مشہور تھے۔ مختلف علاقوں میں خانہ بدوش قبائل کی سرگرمیوں اور وسطی ایشیا کے سیاسی حالات کے باعث، سکیتھیینوں نے جنوبی ایشیا کی طرف نقل مکانی کی اور یہاں آکر اپنی حکمرانی قائم کی حکومت کا آغاز اور علاقے
ازیسز اول نے 58قبل مسیح کے قریب شمالی ہندوستان میں حکمرانی کا آغاز کیا۔ اس کا اقتدار موجودہ پاکستان کے پنجاب، خیبر پختونخوا اور گندھارا ( ٹیکسلا) کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کا ممکنہ دارالحکومت تخت بھائی یا سوات رہا ہے۔ اس کی سلطنت شمال مغربی ہندوستان اور افغانستان کے کچھ حصوں تک بھی پھیلی ہوئی تھی۔ انڈو سکیتھیین بادشاہوں نے یونانی۔ ہندوستانی حکمرانوں کو شکست دے کر اپنے اقتدار کو مستحکم کیا، اور ساتھ ہی مقامی زبان و ثقافت کو اپنا کر مقامی معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ ازیسز اول کا طرز حکمرانی مضبوط اور منظم تھا، جس میں اس نے یونانی اور مقامی روایات دونوں کو شامل کیا۔ سکیتھیین حکمرانوں نے مقامی زبان و رسم الخط اور مذہبی روایات کو اپنایا، جس سے ان کی حکومت کو مقامی لوگوں میں قبولیت ملی۔ اس نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے مضبوط انتظامی نظام بھی قائم کیا اور مختلف ثقافتوں کو اپنے اقتدار کا حصہ بنایا، ازیسز اول کے دور میں بنائے گئے سکے انڈو سکیتھیین تہذیب کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
زیادہ تر سکے چاندی اور تانبے کے تھے، جو تجارت اور عام استعمال میں آتے تھے۔ سونے کے سکے بھی محدود تعداد میں ملتے ہیں۔
ساخت اور ڈیزائن::سکے کے ایک طرف بادشاہ کو گھوڑے پر یا کھڑے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس کے ہاتھ میں تلوار یا نیزہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب یونانی یا ہندی دیوتا، جیسے زیوس یا ہرقل کی تصاویر ہوتی ہیں، جو اس وقت کے مذہبی میل جول کی عکاسی کرتی ہیں۔
تحریریں اور زبان: ان سکوں پر دونوں طرف یونانی اور خروشٹی زبان میں تحریریں ملتی ہیں۔ یونانی تحریر میں بادشاہ کا لقب ’’ بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ لکھا ہوتا ہے، اور خروشٹی زبان کی تحریر مقامی لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔
علامتی نشان: سکوں پر مختلف علامتی نشان جیسے ہلال، ستارہ، ہاتھی، شیر اور پہاڑوں کی تصاویر بھی ملتی ہیں، جو اس وقت کی قدرتی اور مذہبی علامتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
ازیس اول کے تین سکے منڈی بہائوالدین میں محمد ندیم اختر اور ان کے بیٹوں محمد ثوبان، معیز الاسلام، اور محمد ابراہیم نے دریافت کیے۔ اس دریافت نے اس علاقے کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ازیس اول کی حکمرانی یہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ منڈی بہائوالدین میں ان سکوں کی موجودگی اس وقت کے تجارتی اور سیاسی روابط کو ظاہر کرتی ہے۔
پنجاب میں حکمرانی کا دورانیہ
ازیس اول اور اس کے بعد آنے والے سکیتھیین حکمرانوں نے پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخوا میں تقریباً پہلی صدی قبل مسیح سے 30عیسوی تک حکمرانی کی۔ اس دوران انڈو سکیتھیین حکمرانوں نے نہ صرف مقامی زبان، رسم الخط اور مذہبی روایات کو اپنایا بلکہ تجارتی تعلقات بھی قائم کیے۔انڈو سکیتھیین حکومت کا کل دورانیہ تقریباً 100سے 120سال رہا، مگر 30عیسوی کے قریب کشانی حکمرانوں نے، خاص طور پر کجول کدفیزس نے، اس علاقے پر قبضہ کر کے سکیتھیین حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ ازیسز اول کے سکے اور ان کی منڈی بہائوالدین میں دریافت نہ صرف سکیتھیین دور کی حکمرانی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ یہ اس علاقے کی قدیم تاریخ اور ثقافت کا ایک زندہ ثبوت بھی ہیں۔ ان سکوں کی دریافت اور مطالعہ ہمارے قدیم معاشی، تجارتی، اور ثقافتی نظام کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button