Column

انڈس کوئین شاندار ماضی کی نشانی

میری بات
روہیل اکبر
پاکستان بننے سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک عام لوگوں کی قربانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر ان کو پاکستان کی تاریخ سے نکال دیا جائے تو پیچھے صرف ڈھانچہ ہی بچتا ہے جو دریائے سندھ کے کنارے کھڑے ہوئے انڈس کوئین سے ملتا جلتا ہوگا انڈس کوئین کا ذکر اس لیے کر دیا کہ شائد اس کو دیکھنے والے سمجھتے ہوں کہ ہماری ترقی کا کیا عروج تھا جب ہم سعودی حکومت کی مدد کیا کرتے تھے ہماری قومی ایئر لائن جو آج برائے فروخت ہے اور اسے خریدنے کو کوئی تیار نہیں ایک وقت تھا جب ہمارے پاکستانی دوسرے ممالک میں جاکر انکو ائر لائن بنانے اور چلانے کی تربیت دیا کرتے تھے ہماری اسٹیل ملز جو دنیا کے لیے ایک مثال تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کباڑ کا ڈھیر بن گئی ہماری ترقی کا ناقابل یقین سفر جاری تھا جسے دیکھنے کے لیے چین کے ماہرین بھی آئے اور کراچی میں قائم بڑی بڑی عمارتوں کو اپنا رول ماڈل بنایا ڈیم بھی بن رہے تھے اور ہماری زراعت بھی ترقی کر رہی تھی اور تو اور ہماری انڈسٹری بھی پھل پھول رہی تھی بس پھر کیا تھا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے قائد جناب میاں نواز شریف نے باری باری اقتدار سنبھالنا شروع کیا اور ہمارا ملک انڈس کوئین بننا شروع ہوگیا حکمرانوں کے کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگے جس کے بعد نہ صرف حکومتی ادارے ختم ہونا شروع ہوگئے بلکہ ان حکمرانوں کے مقابلہ میں چلنے والے بڑے بڑے کاروبار بھی زمین بوس ہونا شروع ہوگئے آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم لاہور سے کراچی تک کا سفر کرنے سے پہلے گھنٹوں سوچتے ہیں ریل گاڑی کا اعتبار نہیں اور جہاز کا کرایہ عام انسان برداشت نہیں کر سکتا چاہیے تو یہ تھا کہ ہر ضلعی مقام پر ائر پورٹ بنا ہوتا سرکاری ائر لائن کے ساتھ ساتھ درجنوں پرائیویٹ کمپنیوں کے جہاز ہوتے جو مسافروں کو دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرواتے لیکن بات پھر انڈس کوئین والی آجاتی ہے کہ ہم ہماری پی آئی اے بھی اسی پوزیشن میں آرہی ہے انڈس کوئین کیا ہے راجن پور اور بہاولپور کے رہنے والے شائد اس جہاز سے واقف ہوں یہ اس دور کی بات ہے جب ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا لیکن پاکستان اس دور میں بھی بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہت آگے تھا جسکی نشانی آج بھی کوٹ مٹھن میں دریائے سندھ کے کنارے خستہ حال انڈس کوئین کی شکل میں موجود ہے راجن پور میں اس وقت شفقت اللہ مشتاق ڈپٹی کمشنر ہیں جو شاعر اور لکھاری بھی ہیں اور ساتھ میں حساس طبیعت کے مالک بھی ماضی سے بھی واقف ہیں اور مستقبل کو بھی بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں انہی کے علاقے میں دریائے سندھ کے کنارے کھڑا ایک صدی سے زائد پرانا تاریخی بحری جہاز انڈس کوئین متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے باعث تیزی سے بوسیدہ ہو رہا ہے انڈس کوئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے منصوبوں کا کئی بار اعلان کیا گیا لیکن یہ عمل مکمل نہ ہو سکا مبینہ طور پر جہاز کے فکسچر اور فٹنگز بھی چوری ہو گئے ہیں یہ جہاز 1867ء میں برطانوی دور حکومت میں بنایا گیا تھا اور اس کی ملکیت نواب آف بہاولپور کی تھی یہ نواب کے مہمانوں کے سفر کی سہولت کے لیے استعمال ہوتا تھا تین منزلہ جہاز میں 400مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے کے لیے باورچی خانے تھے مرد اور خواتین مسافروں کے لیے الگ الگ حصے تھے ماضی میں یہ جہاز علاقے کے لوگوں کو کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف جانے میں بھی سہولت فراہم کرتا تھا دریا کے دونوں کناروں سے سینکڑوں لوگ روزانہ جہاز پر سفر کرتے تھے نواب آف بہاولپور سبحان صادق نے 1917ء میں کوٹ مٹھن اور روہی کے صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے پیروکاروں کو یہ جہاز تحفے میں دیا جس کے بعد اسے عقیدت مندوں کی آمدورفت کے لیے وقف کر دیا گیا قیام پاکستان کے بعد نواب کے خاندان نے چند سال تک اس جہاز کی دیکھ بھال کی جس کے بعد اسے محکمہ ہائی ویز کے حوالے کر دیا گیا تاہم محکمہ نے جہاز کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حالت خراب ہوتی گئی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضلعی حکومت نے اس تاریخی جہاز انڈس کوئین کی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا اس تاریخی جہاز کے پرزے اور سامان چوری ہوگئے یہاں تک کہ اس کا انجن بھی نکال لیا گیا 2012ء اور 2017ء میں انڈس کوئین کی بحالی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا جو صرف اعلان ہی رہا اور ابھی تک اس جہاز کی بحالی کا کام شروع نہیں ہوا کمشنر ڈیرہ غازی خان جہازاور ڈپٹی کمشنر اس تاریخی جہاز کا دورہ کریں اور اس کی تزئین و آرائش کے لیے کمیٹی بنائیں وہ اسے ضلع راجن پور کے لوگوں کے لیے تفریحی مرکز میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں اگر وہ خود کچھ نہیں کر سکتے تو پھر ایک اور نکما محکمہ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن بھی ہے جو نہ خود کچھ کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو کچھ کرنے دیتا ہے اسے ساتھ شامل کرکے اس جہاز کو قومی ورثہ بنوا دیں اگر ضلعی انتظامیہ اور ٹورازم بھی کچھ نہیں کر سکتا تو پھر ایک اور کھانے پینے والا محکمہ آثار قدیمہ بھی ہے اسے ہی دیدیا جائے جنکی روٹی پانی کا انتظام بھی ہوجائے گا اور جہاز پر لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی شروع ہو جائیگا اگر یہ سب ملک کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تو پھر یہ قیمتی اثاثہ کامران لاشاری کے سپرد کر دیا جائے جو وہاں پر ایک اچھی سی فوڈ سٹریٹ بنا کر رونق میلے کا اہتمام ضرور کر دیگا اس تاریخی جہاز کی بحالی سے نہ صرف علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے میں آنے والے خواجہ فرید کے لاکھوں ماننے والوں کو تفریحی سہولیات بھی فراہم ہوں گی ویسے اس تاریخی جہاز کی تزئین و آرائش کے لیے فزیبلٹی رپورٹ 2017ئ میں تیار کی گئی تھی جہاز کی بحالی کے کام کے لیے جہاز کو کراچی شپ یارڈ منتقل کیا جانا تھا مگر اس کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ اس قیمت پر دو نئے جہاز خریدے جا سکتے تھے اس منصوبے کو اعلیٰ حکام نے بھاری لاگت اور دیگر مسائل کی وجہ سے روک دیا تھا جہاز اب محکمہ ہائی ویز کے کنٹرول میں ہے اور انہوں نے اس جہاز کا وہی حال کر رکھا ہے جو ہماری سڑکوں کا حشر کیا ہوا ہے نہ جانے کب کوئی محب وطن حکمران آئے گا جو ہمیں ہمارے پرانے دور میں ہی لے جائے اور عام لوگوں کی قسمت کھل سکے۔

جواب دیں

Back to top button