
جگائے گا کون؟
سی ایم رضوان
ایک وقت تھا کہ پی ٹی آئی کے جلسے اور احتجاج ہوتے کہیں اور تھے اور انتظامات کہیں اور سے ہوتے تھے لیکن زمانے وقت اور حالات نے انگڑائی لی اور پی ٹی آئی بے آسرا ہو گئی وہ بانی پی ٹی آئی جو کہتے تھے کہ میں سب کو رلائوں گا آج ان کے لئے رونے والوں کی آواز مدہم ہو چکی ہے اور وہ لوگ جو ان کے اشاروں پر تن من دھن قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے اب کسی اور کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ ان حالات میں 24نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی کال پر ہونے والے اسلام آباد مارچ کے لئے تیاریاں تو عروج پر ہیں۔ پاکستان کی آزادی اور عوام کی اکثریت کی پسندیدہ جماعت کے مینڈیٹ کی واپسی اور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لئے جہاں ایک طرف ملک بھر کے نوجوان، بزرگ، طلباء اور اساتذہ سڑکوں پر آنے کی پرجوش تیاریاں کر رہے ہیں وہیں بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی رہنما مشال یوسفزئی نے تصدیق کی ہے کہ سابق خاتون اول 24نومبر کے احتجاج کے لئے بھرپور منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق احتجاج کے راستے میں حائل ممکنہ رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے پورا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق اب کی بار تو یہ’’ جعلی حکومت‘‘ احتجاجی ریلیوں اور لانگ مارچ کے شرکاء کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی حماقت نہ کرے کیونکہ ہم اس سے پہلے بھی متعدد بار غیر قانونی رکاوٹیں عبور کر کے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اب کی بار بھی رکاوٹی کنٹینرز ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے احتجاجی عوام کے جوش و جذبے کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے‘‘۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت اور پارٹی قائدین کے علاوہ سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز احتجاج کے حوالے سے پشاور میں پی ٹی آئی لیڈرشپ کے ایک اجلاس کی سربراہی بھی بشریٰ بی بی نے کی، جس کی تصدیق خیبر پختونخوا حکومت کی مشیر اور بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی مشال یوسفزئی نے کی ہے۔ مشال یوسفزئی سے جب پوچھا گیا کہ کیا بشریٰ بی بی احتجاج کو کامیاب بنانے کے لئے اجلاس اور دیگر منصوبہ بندی کر رہی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’’ ہاں ( وہ منصوبہ بندی کر رہی ہیں )‘‘۔ تاہم منصوبہ بندی کی مزید تفصیلات مشال یوسفزئی نے پیش نہیں کیں۔ اسی حوالے سے مشال یوسفزئی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ عمران خان نے 24نومبر کے پر امن احتجاج کے لئے پورا لائحہ عمل بشریٰ بی بی کو دے رکھا ہے۔ پوسٹ میں مزید لکھا گیا کہ ’’ پارٹی کی گراس روٹ لیول تک لائحہ عمل پہنچ چکا ہے اور جو جو عمران خان نے اڈیالہ جیل میں بشریٰ بی بی سے کہا تھا، حرف بہ حرف باہر پہنچ چکا ہے‘‘۔ مشال نے مزید لکھا کہ ’’ اس وقت بشریٰ بی بی جو بھی کر رہی ہیں، عمران خان کے احکامات اور ہدایات کے مطابق کر رہی ہیں اور یہ سیاست نہیں جہاد ہے‘‘۔ مشال کے مطابق: ’’ بشریٰ بی بی کی سیاست میں انٹری کی تمام باتیں من گھڑت ہیں۔ وہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ ہونے کے ناطے اپنے تمام فرائض پورے کر رہی ہیں اور یہ ان کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ بانی پی ٹی آئی کا پیغام اور دیا گیا لائحہ عمل ان کے احکامات کے مطابق بشریٰ بی بی کے ذریعے من و عن پارٹی قیادت تک پہنچ چکا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے اس سے پہلے بھی 5اکتوبر 2024ء کو اسلام آباد کے ریڈ زون کے قریب احتجاج کی کال دی تھی۔ تب اس مظاہرے کی قیادت بھی وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کر رہے تھے۔ تاہم اس وقت بشریٰ بی بی جیل میں تھیں لیکن بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد اب 24نومبر کو احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ احتجاج ماضی سے الگ ہو گا؟ اور کیا24 نومبر کے احتجاج کے لئے بشریٰ بی بی کی منصوبہ بندی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ بشریٰ بی بی کے سامنے آنے کا مقصد کارکنان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے اسلام آباد جلسے میں کارکنان نے علی امین گنڈاپور پر تنقید کی تھی کہ بقول شخصے ان کے حوصلے پست ہوئے تھے جبکہ اس مرتبہ پنجاب کی قیادت کو بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے سنبھالا ہوا ہے جبکہ خیبر پختونخوا بشریٰ بی بی کی ذمہ داری میں ہے۔ تاہم بشریٰ بی بی کی کچھ باتیں حقائق کے منافی ہیں، جن میں ایک پی ٹی آئی کے ہر ایم این اے کو 10ہزار اور ایم پی اے کو ایک ہزار کارکن لانے کا ہدف دیا جانا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد لانا آج کے حالات میں پارٹی قائدین کے لئے ممکن نہیں کیونکہ اس طرح تو پھر مظاہرین لاکھوں کی تعداد میں بنتے ہیں جبکہ کچھ پارٹی رہنماں کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے آخری جلسے میں بھی خیبر پختونخوا سے 10ہزار تک کارکن نہیں گئے تھے۔ اب جبکہ پارٹی پر ابتلا کا دور ہے تو اس دعوے پر عملدرآمد ناممکن ہے شاید یہ دعویٰ حکومت کو مرعوب کرنے یا کارکنوں کی گرم جوشی میں اضافے کے لئے ایک سیاسی سٹریٹیجی کے طور پر کیا گیا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کے خیال میں بشریٰ بی بی کی منصوبہ بندی کی کامیابی یا ناکامی احتجاج کا نتیجہ نکلنے کے بعد پتا چلے گا۔ احتجاج کے شرکا کو دیکھ کر ہی اس پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک پہلو اس صورتحال کا یہ بھی ہے کہ بشریٰ بی بی کی موجودگی پارٹی رہنماں کے لئے ایک مجبوری ہے کیونکہ ان کے لئے پشاور محفوظ جگہ ہے۔ تاہم ان کی یہاں موجودگی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے پوری پارٹی متحد ہو جائے گی کیونکہ پارٹی کے اندر جو اختلافات پہلے سے موجود ہیں وہ اب بھی موجود ہیں۔ پارٹی کے اندر مختلف گروہ اب بھی موجود ہیں اور 24نومبر کا احتجاج بھی اس مرتبہ بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے کیا ہے اور یہ کسی دیگر پارٹی رہنما کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے۔ احتجاج کے لئے اپنائے گئے طریقہ کار پر کسی حد تک عمل ممکن ہو سکے گا کیونکہ خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کارکن اب بھی جیلوں میں ہیں لیکن یہ امید تو بہر طور موجود ہے کہ علی امین گنڈاپور سے ناراض لوگ شاید بشریٰ بی بی کے کال پر نکل آئیں۔
یہ تو ہے پی ٹی آئی کے اندر کی سیاسی صورتحال مگر حکومت کے خوف کا یہ عالم ہے کہ رانا ثنا اللہ اور عظمی بخاری سمیت ہر حکومتی وزیر مشیر کو 24مئی کے پیش آمدہ حالات سے ڈر لگ رہا ہے اس خوف کی ہی وجہ سے رکاوٹی اور تعزیراتی اقدامات کئے جا رہے ہیں کارکنوں کو ہراساں کرنے، متعدد کو گرفتار کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ورکروں اور حامیوں کے نزدیک یہ احتجاج نہیں جہاد ہے اور اس جہاد کے لئے وہ 24 نومبر کو بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلیں گے۔ یہ جوش و خروش اپنی جگہ لیکن میدان عمل میں کون آتا ہے یہ فیصلہ 24 نومبر کو ہی ہو گا جبکہ حکومت کے ریاستی اقدامات سے اس کا خوف بھی نمایاں ہے۔ آئیڈیل صورت حال کہیں بھی نہیں۔