ColumnQadir Khan

ٹرمپ کی ایران پالیسی پر نظر ثانی ؟

قادر خان یوسف زئی
ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا نہ صرف امریکہ کی داخلی سیاست کے لیے ایک بڑا موڑ ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ سیاست کے لیے بھی ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال کہ آیا یہ تبدیلی واقعی معنی خیز ہو گی یا محض پرانی پالیسیوں کی ایک نئی شکل، اب بھی غیر یقینی ہے۔ مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے جغرافیائی سیاست کا مرکز رہا ہے، ٹرمپ کے دورِ صدارت میں اس خطے میں کیا بدل سکتا ہے، یہ سوال امریکہ کی عالمی پوزیشن کے مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام کو ’’ دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا تھا اور متعدد مواقع پر کہا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے سخت کارروائی کریں گے۔ ان کی یہ باتیں عالمی سطح پر بڑی سنی گئیں، اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ (JCPOA)کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو امریکی سیاست میں ایک اہم فیصلے کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن یہ تمام باتیں صرف بیانات تک ہی محدود رہیں، کیونکہ جب عمل کرنے کا وقت آیا، تو ٹرمپ نے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے کوئی ایسا فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا جو ان کے بیانات سے ہم آہنگ ہو۔ انہوں نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں، لیکن فوجی کارروائی کے لیے کبھی بھی واضح اور فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے۔ ٹرمپ نے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد، ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں اور سفارتی دبائو کی حکمت عملی اپنائی، لیکن ان کی بیان کردہ ’’ سخت کارروائی‘‘ کی دھمکی کبھی پوری نہ ہو سکی۔ ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں، لیکن وہ کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روکنے کے لیے براہ راست فوجی کارروائی پر راضی نہیں ہوئے۔ ان کے دور میں ایران کے جوہری پروگرام میں کوئی واضح پیشرفت نہیں رک سکی، اور نہ ہی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کی طرف کوئی قدم اٹھایا گیا۔
اسرائیل اس وقت غزہ کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے ،مزید برآں حکومت سازی کے مسائل اور حماس ، حزب اللہ کی مزاحمت جاری ہے۔ ایسے میں اسرائیل کو جوہری حملے کی دھمکیوں کے جواب میں فیصلہ کن کارروائی کرنا ’’ آ بیل ، مجھے مار‘‘ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف محدود کارروائیاں کیں، لیکن وہ کسی بھی بڑے اور خطرناک اقدام سے گریز کر رہا ہے جو خطے میں مزید کشیدگی پیدا کرے۔ اس کے ساتھ ہی، اسرائیل کو ایران کی جوہری صلاحیتوں کے حوالے سے امریکہ دبائو کا سامنا ہے کیونکہ ٹرمپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایسا کچھ ہو۔
ٹرمپ نے کبھی بھی ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ایسی کارروائی کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے امریکہ کی داخلی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوتے۔ امریکہ میں ایک جنگی مہم چلانے کے نتیجے میں عوامی ردعمل اور داخلی سیاسی دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، جس سے ٹرمپ بچنا چاہتے تھے۔ اس کے بجائے، انہوں نے ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کے بجائے اقتصادی پابندیوں اور سفارتی دبائو کو ترجیح دی۔ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کو اس طرح ترتیب دیا کہ ان کی اثرات دوسری مدت میں مزید مستحکم ہوں اور سیاسی نقصان سے بچا جا سکے، جس کا مطلب تھا کہ ایران کے خلاف کوئی فیصلہ کن فوجی کارروائی یا حملہ ممکن نہیں تھا۔
20 جنوری، جب ٹرمپ صدارت کا حلف اٹھائیں گے، اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ایران کی ’’ رنگ آف فائر‘‘ حکمت عملی ہوگی۔ ایران اپنی پراکسیز اور فوجی قوت کے ذریعے اسرائیل کے خلاف ایک ایسا محاذ قائم کر رہا ہے جو نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے حمایتوں کے لئے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرنے کے لیے بڑی حد تک کامیاب اقدامات کیی ہیں۔ حماس کی قیادت کے خاتمے اور حزب اللہ کے میزائل ذخائر کی تباہی نے ایران کے ان ستونوں کو نقصان پہنچایا ہے جن پر وہ اپنی طاقت کی بنیاد رکھتا ہے۔ یمن کے حوثی اب بھی بحیرہ احمر کے راستے کو روکے ہوئے ہیں، جبکہ ایران کی شامی اور عراقی پراکسیز کو صرف محدود نقصان پہنچا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بحران اب بھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا۔
اسرائیل کی جارحیت ایران کو مسلسل دبا میں رکھ رہی ہے۔ حالیہ فضائی حملے، جن میں روسی ساختہ ایس۔300ایئر ڈیفنس سسٹم کی تباہی شامل ہے، ایران کے لیے ایک واضح پیغام ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی فوجی برتری کے خواب نہ دیکھے۔ تہران کی جانب سے دعوے تو کیے گئے کہ وہ اسرائیلی حملوں کا بدلہ لے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران اپنی کمزور فوجی پوزیشن کے باعث کوئی بڑا اقدام اٹھانے سے گریزاں ہے۔ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ نے تہران کے جوہری پروگرام یا اس کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کیا، شاید اس لیے کہ امریکی انتخابات اور صدارتی منتقلی کے دوران کوئی بڑا بحران نہ پیدا ہو۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا 20جنوری سے پہلے اسرائیل مزید بڑے اقدامات کرے گا؟ موجودہ حالات میں یہ ممکن ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھائے تاکہ نئے امریکی صدر کے لیے کم چیلنجز باقی رہیں۔ لیکن ایران کی جانب سے کوئی بھی جوابی کارروائی اس خطے میں کشیدگی کو انتہائی خطرناک حد تک لے جا سکتی ہے۔ اگر ایران نے جوابی کارروائی کی، تو اسرائیل کے پاس ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا موقع ہوگا۔
اگرچہ یہ خطہ نئی سٹریٹیجک تبدیلیوں کے لیے تیار ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی اشارے اس بات کی ضمانت نہیں دیتے کہ وہ ان مواقع کو سمجھنے یا ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تنازع مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ہمیشہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا رہے گا، جب تک کہ دونوں ممالک کوئی بامعنی سفارتی حل تلاش نہ کریں۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات ایک نازک موڑ پر ہیں، جہاں ایک غلط قدم پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ لمحہ ایک امتحان ہوگا کہ آیا وہ ان غیر یقینی حالات میں امریکی مفادات کو محفوظ رکھنے اور مشرق وسطیٰ میں استحکام لانے کے لیے کوئی معنی خیز حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں یا نہیں۔ ٹرمپ کے دورِ صدارت کا یہ ابتدائی مرحلہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا تعین کرے گا، اور یہ بھی کہ امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر امن و استحکام کے لیے کیا کردار ادا کرے گا۔ لیکن ابھی تک کی علامات حوصلہ افزا نہیں ہیں، اور دنیا صرف انتظار کر سکتی ہے کہ آنے والے دن کیا نیا موڑ لاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button