آئینی ترامیم کے بعد

رانا اقبال حسن
چھبیسویں آئینی ترامیم جب سے پارلیمنٹ سے منظور ہوئی ہیں اس کے بعد سیاسی ماحول بدلا بدلا سا لگتا ہے ۔ ان ترامیم کے سب سے زیادہ اثرات عدلیہ پر پڑے ہیں۔ اور یہ ترامیم اس وقت آئی ہیں جب سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک متنازعہ دور گزار کر ریٹائر ہو گئے ہیں اگر حکومت چاہتی تو ان کی مبینہ شاندار خدمات پر ترامیم میں ایک جملہ ڈال کر ان کو بھی ایکسٹینشن دے سکتی تھی۔ مگر ان کو چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ سہولت نہیں دی گئی ان کو چلتا کیا گیا اور اس کے متبادل کے طور پر پہلے آئینی عدالت اور پھر مولانا فضل الرحمان کی اصرار پر آئینی بینچ بنایا گیا۔ بعد میں اس آئینی بنچ کو مولانا فضل الرحمان اپنا کارنامہ بتا رہے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ آئینی بینچ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے متبادل اور متوازی قوت کا حامل بن چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کچھ دن انقلابی موقف رکھنے کے بعد مشرف دور کی تاریخ دہرا چکے ہیں جب انہوں نے جنرل مشرف کے اقتدار کو طوالت دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ وہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر ہیرو سے زیرو بن چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں نے جوڈیشل کمیشن میں تجویز پیش کی کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل آئینی بینچ بنایا جائے تاکہ سپریم کورٹ میں کسی قسم کی تقسیم نہ ہو مگر ان کی یہ بات سات، پانچ کے تناسب سے مسترد کر کے طاقتور جوڈیشل کمیشن نے جونیئر جج جسٹس امین الدین کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس امین الدین نے بطور ممبر جوڈیشل کمیشن اپنا ووٹ بھی خود کو دیا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا مکمل کنٹرول گورنمنٹ کے پاس ہے۔ اب تمام تر آئینی مقدمات جن میں الیکشن کے کیس بھی شامل ہیں ان کی اس آئینی بنچ کو منتقلی کے بعد سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس اور سینئر ترین ججز کے پاس فراغت ہی فراغت ہوگی اور وہ سیشن ججوں اور سول ججوں سے فیصلہ شدہ مقدمات کی اپیلیں سن رہے ہوں گے۔ البتہ آئینی بنچ کی تشکیل سے ایک دو دن پہلے سینئر جج منصور علی شاہ اور منیب اختر نے موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک خط لکھ کر چھبیسویں ترمیم کے خلاف دائر ایک درخواست پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا مگر چیف جسٹس نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا جس کے بعد آئینی کورٹ کے فنکشنل ہونے کے بعد بال مکمل طور پر چیف جسٹس کے کورٹ سے اب نکل چکی ہے۔ اگر فل کورٹ بن جاتی تو بہت سے معاملات واضح ہوسکتے تھے۔ اب ایک طرح کی کنفیوزن بھی ہے اور مستقبل قریب میں اس آئینی بینچ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کنفیوژن پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ جسٹس منصور نے ایک کیس میں ریمارکس دئیے کہ اگر ہم کسی بھی کیس کو سننا شروع کر دیں تو ہمیں کون روکے گا اور معاملہ اپیل میں بھی ہمارے پاس آنا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس پر کون سا فورم ہے جو فیصلہ کرے گا اس بارے کچھ واضح نہیں ہے ۔ یقینا اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو فل کورٹ ہی تشکیل دینا پڑے گی ۔ بہر حال اس وقت قانونی ماہرین جسٹس امین الدین خان کو چیف جسٹس سے زیادہ طاقتور قرار دے رہے ہیں کہ حکومت کے تمام معاملات جس میں آئینی تشریح درکار ہوتی ہے وہ آئینی بنچ کے سامنے ہی آنے ہیں اور آئینی ترمیم کے ذریعے یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ آئینی بنچ کے مقدمات کسی اور بینچ کو نہیں دئیے جا سکتے ۔ سپریم کورٹ میں کافی عرصہ سے جاری تقسیم کو ختم کرنا نئے چیف جسٹس کے لئے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اسی دوران پارلیمنٹ نے ایک سادہ بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد سترہ سے بڑھا کر چونتیس کر دی ہے ان اضافی سیٹوں پر حکومتی پارٹیاں یقینا اپنے ہم خیال وکلا کو جج تعینات کرنے کی کوشش کریں گی ۔
جمہوریت پسند حلقوں نے ان ترامیم کو عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پاکستان جہاں پہلے ہی انصاف کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب عدلیہ پر حکومتی کنٹرول سے اپوزیشن کو اندیشہ ہے کہ حکومت سیاسی کارکنوں کو مزید دبانے کی کوشش کرے گی اور آئین میں دی گئی سیاسی آزادیوں جیسے احتجاج کا حق ، تحریر و تنقید کا حق ، شامل ہیں اس پر اور سختی سے قدغن لگائی جائے گی ۔ پولیس اور زیادہ بے لگام ہو جائے گی جس پر سیاسی مخالفین کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کے سخت الزامات ہیں ۔ حکومت جب پہلے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کاروائی کرتی تھی تو اس وقت اپوزیشن کو آزاد عدلیہ کا سہارا ہوتا تھا اس طرح الیکشن میں تنازعات اور دھاندلی وغیرہ کے مقدمات میں بھی ایک امید ہوتی تھی کہ جلد یا بدیر ان کا فیصلہ ہو گا اور ان کو اپنا حق مل جائے گا ۔ اس طرح تحریک انصاف کا مخصوص نشستوں کا کیس تنا جس میں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ کیا تھا اگرچہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا مگر پھر بھی سیاسی جماعتوں کو انصاف کی امید باقی رہتی تھی مگر ان ترامیم کے بعد حکومت نے اپوزیشن کے تمام سیاسی راستوں کو بند کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دینے کی کوشش کی ہے۔ اب ان ججز کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو حکومت کی خواہش کے برعکس فیصلے دینے کی کوشش کر رہے تھے جس میں متنازعہ الیکشن کے بھی مقدمات شامل تھے ۔ اگرچہ حکومت کو عدلیہ کی جانب سے خطرات کم ہو چکے ہیں مگر اپوزیشن جو فرسٹریشن اور مایوسی کا شکار ہوئی ہے وہ اس کے بعد مکمل جارحانہ موڈ میں جا سکتی ہے اور اسکا نتیجہ بھی سامنے آچکا ہے جب بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے ایک پیغام کے ذریعے چوبیس اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے دی ہے ۔ وزیراعلی خیبر پختونخوا کے مطابق اس دفعہ احتجاج اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتے اور یہ مقصد بانی تحریک انصاف کی رہائی ہے۔ اس موقع پر اس شدت کا احتجاج حکومت کے سخت ری ایکشن کو دعوت دے گا۔ اور سیاسی ماحول انتہائی پراگندہ ہو گا۔ اس وقت جب دہشت گردوں کی طرف سے ملک بھر میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین لڑائی کی بجائے پوری قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے سیاسی مسائل کو گفت و شنید سے حل کرنا چاہئے وہیں پر آئین جس کو انیس سو تہتر میں سب جماعتوں نے اتفاق سے ترتیب دیا تھا اس کے بنیادی سٹرکچر کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔