یہ احتجاج ماضی سے کتنا مختلف ہوگا؟

تجمّل حسین ہاشمی
عمران خان کیا چاہتے ہیں، ماضی کے احتجاج سے اس دفعہ کی کال میں کیا مختلف ہوگا؟ جس طرز کے احتجاج کا چرچا کیا جارہا ہے اس سے تحریک انصاف کو درپیش مسائل میں کیا کمی آ سکے گی؟ کیا ملک غیر جمہوری طریقہ کار کے ذریعے ترقی کر سکتا ہے؟ بانی تحریک انصاف نے 24نومبر کی تاریخ دینے میں اتنی سوچ بچار کیوں کی، قیادت اس بار کے احتجاج کے حق میں کم نظر آتی ہے لیکن بانی کا طرز عمل واضح ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں مستقل ہیں۔ اس وقت لوگوں کو گھروں سے نکالنا اور قیادت کا سڑکوں پر آنا کافی مشکل ہے۔ مقامی قیادت اور ووٹر پہلے بھی اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر جیل جاچکے ہیں۔ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو مسلسل گردش میں ہے جس میں اداروں کی طرف سے ایک لڑکا نو مئی کو گرفتار ہوا، اس کے ساتھ ہونیوالے ظلم کو پوسٹ کیا جارہا ہی، جس میں لڑکا اپنی گرفتاری اور ماں کی موت کا واقعہ بتا رہا ہے، یقیناً یہ ظلم ہے۔ کیا ریاست اس کو ظلم تصور نہیں کرتی؟ ریاست کو آگے بڑھ کر اس سے ہمدردی کرنی چاہئے۔ عوام کیلئے ایک اچھا میسج ہوگا۔ ریاست کے امیج میں بہتری آئے گی۔ ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنما ملک سے باہر بیٹھے ہیں، ان کے خیالات کچھ اور ہیں، ملک میں موجود رہنمائوں کا اس احتجاج کو لیکر سوچ یقیناً مختلف ہے، ملک میں موجود قیادت کے مطابق مارو یا مرنے والی سوچ جماعت کے اپنے کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ اگر جلسہ ناکام ہوا تو اگلے چھ ماہ دوبارہ مومنٹم نہیں بنے گا۔ اہم سیاسی بصیرت کے مالک رہنما فواد چودھری کا کہنا ہے کہ لوگ تو تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ہیں، لوگوں کا اکٹھا ہونا تنظیم کا معاملہ ہے، اگر تنظیم نے اچھی حکمت عملی بنائی تو لاکھوں لوگ آئیں گے۔ دوسرا اہم نکتہ کہ قیادت عمران خان کی بیگم اور بہنوں نے کی تو بھی لوگ جڑیں گے۔ "پاکستان تحریک انصاف میں اس وقت دو مختلف رائے پائی جارہی ہیں، احتجاج سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے اور ملکی سلامتی کا تحفظ بھی ہر فرد پر لازم ہے۔ جلسوں میں مرنے یا مارنے والے نعروں کے اعلانات پر یقیناً ادارے متحرک ہوں گے لیکن اداروں کو آئین پاکستان کی حدود میں رہ کر قانونی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ شہریوں کے جان مال کا تحفظ ان کی اولین ذمہ داری ہے اور ہونی بھی چاہئے، اداروں کی طرف سے غیر قانونی طریقہ کار اختیار کرنا قانون شکنی ہے، حکومت وقت کو اداروں کی طرف سے غیرقانونی کارروائی کو روکنا چاہئے۔ جمہوری حکومت میں آمرانہ طرز نہیں چلے گا۔ دونوں بڑی پارٹیاں خود کو جمہوری کہتی ہیں اور جمہوریت کیلئے اپنی اپنی قربانیوں کا حصہ کئی سالوں سے وصول کر رہی ہیں لیکن عوام میں بے چینی میں اضافہ اس لیے ہو رہا ہے کہ ماضی کے 40سالوں میں ان کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ جن اداروں سے قوم کو احتساب اور سخت کارروائی کی امیدیں تھیں وہ قومی وسائل کی لوٹ مار پر خاموش ہیں بلکہ یوں کہہ لیں سیاسی مفادات کی قانون سازی میں برابر شریک ہیں۔ خان کا جادو سر چڑھ کر یوں بول رہا ہے کہ لوگ دماغی طور پر تسلیم کر چکے ہیںکہ ماضی کی تمام حکومتوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ عوام آج بھی بجلی کے بھاری بلوں اور بے روزگاری سے پریشان حال ہے، کوئی سربراہ اپنی اس ناقص کارکردگی پر شرمندہ نہیں ہے، پروٹوکول اور پی آئی اے جیسے بڑے اداروں کی خریداری میں لگے پڑے ہیں۔ ملکی حالات اس قدر بگڑ رہے ہیں کہ چین جیسے دوست ملک نے اپنے شہریوں کی سکیورٹی کیلئے اپنے اہل کاروں کے حوالہ کرنے کیلئے درخواست کردی ہے۔ یقیناً ہمارے عسکری اداروں کی اہلیت، قابلیت کو دنیا تسلیم کرتی ہے لیکن سیاسی کھچائو طاقتور ملکوں کو کمزور کر دیتا ہے، سیاسی جماعتوں کو اداروں کا بھر پور ساتھ دینا چاہئے لیکن وہ اس وقت اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں، جو ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ ادارے آئین اور حکومت حکم کے تابع ہیں۔ حکمران جماعت کو دیکھنا ہے پی ٹی آئی کی طرف سے 24نومبر کے احتجاج کو کیسے ہنڈل کرنا ہے۔ سخت فیصلوں سے مزید سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوں گے ۔ یہاں جموری حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہے لیکن وہ اپنی سیاست میں لگے ہوے ہیں ۔ سیکورٹی کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ یقینا صورت حال سے نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنا دبا بڑھا کر اپنے مطالبات کو بھی منوانا چاہتی ہے ، اب گیم فائنل رانڈ میں دخل ہو چکی ہے ، حالات اور واقعات سے نظر آ رہا ہے کہ اگلا سال انتخابات کا سال ہو گا یا چھوٹی میاں صاھب کی سیٹ کیلئے مسائل ہوں گے ، دوسری طرف آیئنی بینچ میں 34 مقدمات کی سماعت جاری ہے ۔ پی ٹی آئی کا احتجاجی کال پر عوامی ردے عمل سے واضح ہو جا۳ گا . حکومتی کوشش اور معاشی اعدادوشمار تو بہتر صورتحال کی عکاسی کر رہے لیکن گرانڈ پر صورت حال بہت مختلف ہے ، گرائونڈ صورت حال کو پی ٹی آئی یقینا کیش کروانے کے لیے تیار ہے لیکن پی ٹی ائی کسی انٹی ریاست مہم کا حصہ نا بنے تو بہتر ہو گا ۔ ملکی سلامتی اس کے تحفظ پر کوئی غیرقانونی بیانیہ قبول نہیں ہونا چاہئے۔ پی ٹی آئی کو ایسے بیانیہ سے دور رہنا ہی ہوگا۔