
تحریر سی ایم رضوان
دنیا بھر کی سماجیات، اخلاقیات، معاشیات اور امن و امان سے کسی بھی وقت اور کسی بھی طرح سے خوفناک، ہولناک اور خونخوار قسم کا کھلواڑ کرنے کی سرکاری پالیسی کے حامل اور عامل ملک امریکہ کے ووٹروں نے خود اس ملک کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے ایک مسخرے یعنی ڈونلڈ جے ٹرمپ کو دوسری بار پھر صدارتی انتخاب میں کامیاب کروا دیا ہے۔ اس ریپبلکن امیدوار نے وائٹ ہائوس میں صدارت کی کرسی کے حصول کی دوڑ میں ایک معقول، لبرل ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو محض اس بناء پر شکست دے دی ہے کہ امریکیوں کی اکثریت اپنے لئے ایک ڈرامے باز ٹائپ کے صدر کو پسند کرتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹرمپ کے حامی ان کی جانب سے بیان کردہ پالیسی امریکہ فرسٹ یعنی سب سے زیادہ امریکی مفادات کے حصول کے نعروں پر ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کا جشن منا رہے ہیں لیکن امریکہ کے علاوہ دنیا بھر کے لوگ صدر ٹرمپ کی دوسری میعاد کے دوران امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان کس طرح کے تعلقات ہوں گے اس بارے میں فی الوقت کچھ بھی نہیں کہہ سکتے لیکن اگر ٹرمپ کی بیان کردہ پالیسی یعنی امریکہ کے مفادات کو ہی سامنے رکھا جائے تو بھی مستقبل کی تصویر خاصی خوفناک نظر آتی ہے کیونکہ اگر ٹرمپ کی طرف سے دنیا کے مقابلے میں صرف امریکی مفادات کو ہی ترجیح دی گئی تو آدھی دنیا کے مفادات اور امن خطرات سے دوچار ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ جے ٹرمپ نے حالیہ 2024کے انتخابات میں 270سے زیادہ الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کیے۔ اس سے قبل وہ 2017سے 2021تک صدر رہ چکے ہیں۔ ٹرمپ کے حامی یکطرفہ طور پر، اپنے صدر کو ایک ایسا نجات دہندہ اور ہیرو سمجھتے ہیں جو امریکہ میں لبرلز کے خلاف اپنی اقدار کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے۔ تاہم ان کے ناقدین انہیں ایک سزا یافتہ مجرم قرار دیتے ہیں اور یہ حلقہ ان کی انتخابی مہموں کو حیرانی کے ساتھ دیکھتا رہا ہے اور ان کی بنیاد پرستانہ پالیسیوں، غیر ریاستی طرز عمل اور دفتر کے اندر اور باہر سوشل میڈیا کے زبردست جھوٹے استعمال پر افسوس کا اظہار کرتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر انتخابات سے قبل مہم کے دوران ٹرمپ نے اپنے اس بیان سے سنسنی پیدا کر دی تھی کہ اسپرنگ فیلڈ، اوہائیو میں ہیٹی سے آنے والے تارکین وطن پڑوسیوں کی بلیاں اور کتے کھانے کے لئے چرا رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ بہرحال ٹرمپ کی اس دوسری میعاد کے دوران امریکہ اور باقی دنیا کو جس چیز کا انتظار ہے، اس کے بارے میں فی الوقت کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کی پہلی مدت اور اس کے بعد کے دور پر ایک نظر ڈالنے سے مستقبل کی متعدد چیزوں کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کے حامیوں کی ذہنی حالت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کی چوری، کیپیٹل ہل پر حملے اور دیگر مجرمانہ الزامات کے باوجود ٹرمپ کے حامیوں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جب ٹرمپ نے یہ ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ 2020کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن سے ہار گئے اور دعویٰ کیا کہ ان کی فتح چوری کر لی گئی تو قدامت پسندوں کی بڑی تعداد نے ان کی اس بات پر بھی یقین کیا کیونکہ وہ اس ضمن میں تعصب، میں نہ مانوں اور ہمارا لیڈر سچا ہے جیسے اوہام کا شکار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ 14جون 1946ء کو نیویارک شہر کے علاقے کوئنز بورو میں پیدا ہوئے تھے جبکہ ٹرمپ کے دادا 21ویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے قصبے کالسٹاڈٹ سے امریکہ ہجرت کر کے آئے تھے۔ حالانکہ متعدد جائزوں نے اس دعوے کو غلط ثابت کیا ہے، پھر بھی، ٹرمپ اپنے اس بیانیے پر قائم رہے کہ ڈیموکریٹس نے انتخابی دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی عدالتوں نے بھی ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ چھ جنوری 2021ء کے روز دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور ٹرمپ کے حامیوں کے ایک گروپ نے بائیڈن کی انتخابی جیت کی باضابطہ تصدیق کو روکنے کی کوشش میں واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کیپیٹل پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس دن کے اوائل میں ٹرمپ نے ہزاروں حامیوں کے سامنے ایک تقریر کی تھی، جس میں انہوں نے اپنے جھوٹے دعووں کو دہراتے ہوئے کہا تھا، ’’ اگر آپ جنونی ہو کر لڑیں گے نہیں، تو آپ کا کوئی ملک نہیں رہے گا‘‘۔
ٹرمپ کو 2024ء کے صدارتی انتخابات سے قبل متعدد دیگر قانونی چیلنجوں کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ایک کیس میں جج نے بھی انہیں الیکشن کے بعد تک سزا سنانے میں تاخیر کی۔ بطور صدر، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ٹرمپ کو سزا سنائی جائے گی۔ خدشہ ہے کہ صدر ہوتے ہوئے بھی انہیں کسی بھی وقت جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ پر جب وہ صدر نہیں تھے، فلوریڈا میں اپنے مار۔اے۔لاگو رہائش گاہ پر خفیہ سرکاری دستاویزات رکھنے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔ مزید برآں، ایک جیوری نے ٹرمپ کو سال 1990کی دہائی کے اواخر میں، سابق صحافی ای جین کیرول کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا مجرم قرار دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں لاکھوں ڈالر کا ہرجانہ بھی ادا کرنا پڑا، پھر بعد میں انہوں نے یہ کہہ کر ان کی بدنامی بھی کی کہ وہ اس واقعے کے بارے میں جھوٹ بول رہی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے حامی ان کو سپر پاور کا صدر ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ان کی پالیسی ’ سب سے پہلے امریکہ‘ پر ان کو پسند کرتے ہیں۔ ان کے ووٹرز ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ رکھنی کے ان کے وعدے کے پورا کرنے کی قدر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سابقہ دور صدارت میں ٹرمپ نے نیٹو پر بھی تنقید کی، اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت جیسے بین الاقوامی اداروں سے امریکہ کو نکال لیا اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے کو بھی ترک کر دیا۔ اگرچہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ دوبارہ اس میں شامل ہوئی، تاہم ٹرمپ اپنی فطرت اور پالیسی کے باعث امریکہ کو دوبارہ واپس لینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے یک طرفہ انداز نے امریکہ کے یورپی اتحادیوں کی ناراضگی کو بھی اپنی طرف مبذول کرایا، پھر بھی وہ بہت سے امریکی قدامت پسندوں کو خوش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سیاست کی بجائے کاروبار اور تفریح کا پس منظر رکھنے والے نومنتخب صدر ٹرمپ 14جون 1946ء کو نیویارک شہر کے کوئنز بورو میں پیدا ہوئے تھے۔ ٹرمپ کے دادا 19ویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے قصبے کالسٹاڈٹ سے امریکہ ہجرت کر کے گئی تھے۔ کالسٹاڈٹ موجودہ رائن لینڈ پلیٹینیٹ میں واقع ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فلاڈیلفیا کے باوقار وارٹن سکول آف بزنس میں تعلیم حاصل کی اور سال 1968میں اکنامکس میں بیچلر آف سائنس کے ساتھ گریجوایشن کیا۔ سن ستر اور1980کی دہائیوں کے دوران انہوں نے اپنے خاندان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو بڑھانا جاری رکھا، جسے ٹرمپ آرگنائزیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ مڈ ٹان مینیٹن میں ٹرمپ ٹاور جیسے ہائی پروفائل پراجیکٹس تیار کرتے رہے، جہاں وہ فلوریڈا جانے سے پہلے بھی رہتے تھے۔ ان کی اس کمپنی نے متعدد ہوٹلز، کیسینو اور گولف کورسز چلائے، جن میں سے اب اکثر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی ریئلٹی ٹیلی ویژن شو ’’ دی اپرنٹس‘‘ کے میزبان کے طور پر بھی اپنا نام روشن کیا۔ سال 2004میں شروع کیے گئے اس پروگرام کے فارمیٹ میں ٹرمپ کے کاروباروں میں سے کسی ایک کے ساتھ ایک برس کا معاہدہ جیتنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کرنے والوں کا ایک گروپ دکھایا جاتا تھا۔ اس مقابلے کے ہر دور کے بعد ٹرمپ اپنے معروف جملے ’’ یو آر فائر‘‘ ( آپ کو نکال دیا گیا) کہہ کر ایک امیدوار کو نکال دیا کرتے تھے۔ اس دوران ٹرمپ اکثر ایسے حقائق کو مسترد کر دیتے تھے، جنہیں وہ ناپسند کرتے اور وہ اکثر انہیں ’’ جعلی خبریں‘‘، بتا کر اپنے بہت سے حامیوں کو اس بات پر قائل کرتے کہ میڈیا کے ادارے ان کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لئے جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران، ان کی انتظامیہ کے پریس کے ساتھ کانٹے دار تعلقات رہے، نیز انہوں نے جھوٹے اور گمراہ کن دعووں کا ایک ٹریک ریکارڈ برقرار رکھا۔ ٹرمپ اکثر ایسے حقائق کو مسترد کر دیتے، جنہیں وہ ناپسند کرتے تھے۔ وہ اکثر انہیں ”جعلی خبریں”، بتا کر اپنے بہت سے حامیوں کو اس بات پر قائل کرتے کہ میڈیا کے اہم ادارے ان کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لئے جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے سخت گیر امیگریشن پالیسیوں پر عمل کیا اور بار بار نسل پرستانہ ریمارکس بھی کیے۔ سال 2016کے صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ نے میکسیکو کے تارکین وطن کو ’’ ریپسٹ‘‘ اور ’’ مجرم‘‘ کہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ امریکہ، میکسیکو کی سرحد کے ساتھ ایک دیوار تعمیر کریں گے اور میکسیکو کو بھی اس تعمیر کا خرچہ اٹھانا پڑے گا، تاہم اس نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ 2021ء میں ٹرمپ کی پہلی مدت کے اختتام تک، 3145کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ 732کلومیٹر کی تعمیر ہو چکی تھی، جس پر اس وقت امریکی ٹیکس دہندگان کو تقریباً 16بلین ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ علاوہ ازیں امیگریشن پر ٹرمپ کے سخت موقف کے بھی دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ لاطینی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن امریکی سرحد پر پھنسے ہوئے تھے، جن کے بچے اپنے والدین سے جدا ہو گئے۔ جیلوں میں بند ایسے چھوٹی بچوں کی فوٹیج نے اندرون و بیرون ملک غم و غصے کو جنم دیا۔ تاہم ٹرمپ کی انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی لہر سے لڑنے کے لئے ایسے اقدامات ضروری ہیں اور امریکی حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کا اچھی طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے کل تین شادیاں کیں اور ان کے پانچ بچے ہیں۔ 2005ء میں ٹرمپ نے سلووینیا کی سابق ماڈل میلانیا ناواس سے شادی کی۔ جوڑے کا ایک بیٹا بیرن ٹرمپ ہیں۔ میلانیا سے شادی سے پہلے ٹرمپ کی شادی اداکارہ مارلا میپلز سے ہوئی تھی۔ تاہم وہ کیلیفورنیا میں تنہا اپنی بیٹی ٹفنی کی پرورش کر رہی ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی شادی 1977ء اور 1990ء کے درمیان ایوانا زیلنیکووا سے ہوئی، جس کے نتیجے میں تین بچے پیدا ہوئے: ڈونلڈ جونیئر، ایوانکا اور ایرک۔ اس برس کے ریپبلکن نیشنل کنونشن میں، ٹرمپ نے سیاسی میدان کے لبرل کے حوالے سے اپنے سابقہ حملوں کی برعکس، اتحاد کے پیغام پر زور دیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا، ’’ بطور امریکی، ہم ایک ہی قسمت اور ایک مشترکہ تقدیر سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اکٹھے اٹھیں گے یا ساتھ ہی ہم الگ ہوں گے۔ میں پورے امریکہ کے لئے صدر بننے کی دوڑ میں ہوں‘‘۔
صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کے حالات اور دنیا کے معاملات پر پاکستان میں بھی حد سے زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے اور یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ ان کے عہد صدارت میں دنیا بھر میں امریکہ کے لئے موجود نفرت کسی بھی طور کم نہیں ہو گی بلکہ اس میں نفرت میں اگلے سالوں میں ٹرمپ کی سخت متشددانہ پالیسیوں کے باعث اضافے کا شدید خدشہ ہے۔