ColumnFayyaz Malik

سموگ اور حکومتی اقدامات

فیاض ملک

اللہ تعالیٰ نے جس کائنات کی تخلیق کی وہ بے حد وسیع ، خوبصورت ، حسین و جمیل، صاف و شفاف اور اجلی ہے۔ لیکن انسان اپنی نت نئی ایجادات اور مصنوعات کے مرہون منت اس کائنات کو آلودہ اور تباہ کر رہا ہے۔ یہ آلودگی درحقیقت زہر ہے جو انسانی صحت اور زندگی کو برباد کر رہی ہے۔ اس وقت جو چیزیں کائنات کو آلودہ اور انسانی صحت کو تباہ کر رہی ہیں ان میں سر فہرست ’’ سموگ ‘‘ ہے، اس وقت ایک مرتبہ پھر ہماری فضا سموگ کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے حد نگاہ میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے۔ فضا میں چہار سو پھیلی سموگ کی وجہ سے نہ صرف نظام زندگی متاثر ہے بلکہ یہ مختلف بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں سموگ کی اوسط شرح خطرناک حد بھی پار کر گئی جس سے لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 1173تک پہنچ گیا۔ بھارت سے آنیوالی زہریلی ہوائوں نے پاکستان کی فضا کو مزید زہر آلود کر دیا، جس سے لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں آج بھی پہلے نمبر پر ہے اسکے علاوہ ملتان اور پشاور میں بھی سموگ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، شہریوں کو سانس کے مسائل، آنکھوں میں جلن کی شکایات عام ہیں، یونیورسٹی آف شکاگو کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سموگ کے باعث ہر پاکستانی شہری کی اوسط عمر میں 2.7سال کی کمی آ رہی ہے، جبکہ لاہور کے ہر شہری کی عمر میں 5.3سال، فیصل آباد کے شہری میں 4.8سال اور گوجرانوالہ کے ہر شہری کی عمر میں 4.7سال کی کمی آ رہی ہے۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سموگ کیا ہے؟ زہریلے دھوئیں گرد و غبار اور آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا میں تحلیل ہونے والی آلودگی کو سموگ کہا جاتا ہے، دنیا میں پہلی بار سموگ کا لفظ 1950ء کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی بار صنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سموگ دو الفاظ دھواں(Smoke) اور دھند (FOG) کے باہمی اشترک سے بنا ہے جو کہ پہلی مرتبہ1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق یہ لفظ Henry Antoine des Voeux . Drنے اپنے مکالے فوگ اینڈ سموگ (Fog & Smog)میں استعمال کیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں سالانہ 70لاکھ افراد کی اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہے۔ دنیا کی 91فیصد آبادی ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں ہوا کا معیار عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی حدوں سے تجاوز کرتا ہے۔ پاکستان میں فوٹو کیمیکل سموگ پائی جاتی ہے اس میں وولیٹائل کے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں جو مختلف قسم کی گیسوں، مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ فضائی آلودگی تو سارا سال
رہتی ہے تو بھر یہ سموگ نومبر میں ہی کیوں آتی ہے ؟ جس کا جواب کچھ یوں ہے کہ نومبر کے آتے ہی ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ہمسایہ ملک سے دھوئیں کے بادلوں کا آنا بھی شروع ہو جاتا ہے۔ جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو یہ ذرات جم جاتے ہیں اور عام زبان میں اس کو سموگ کا سبب خیال کیا جاتا ہے، پاکستان میں سموگ کے مسئلے نے 2015ء میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں سموگ اکتوبر سے جنوری تک کسی بھی وقت وارد ہو سکتی ہے اور اس کی شدت 10سے 25دن تک طویل ہو سکتی ہے اور فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور صوبائی وزیر برائے تحفظِ ماحول و موسمیاتی تبدیلی مریم اورنگزیب نے ذاتی دلچسپی لیکر پنجاب سے سموگ کے خاتمے کیلئے گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسے اقدامات کیے ہیں جن کو بجا طور پر ہر سطح پر سراہا جانا چاہیے۔ صوبائی حکومت نے سموگ پر قابو پانے کیلئے اقدامات کا آغاز مارچ میں کیا جب سموگ کا موسم ابھی بہت دور تھا، اس کام کی ذمہ داری صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کو سونپی گئی، پہلے مرحلے میں کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کو قابلِ عمل منصوبے بنانے کا کام سونپ دیا گیا تھا اسی طرح دوسرے مرحلے میں اقدامات کے سختی سے نفاذ پر توجہ دی گئی اور اینٹوں کے بھٹوں اور صنعتوں سمیت ہر اس جگہ کو ٹارگٹ کیا گیا جہاں کاربن اخراج کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے، علاوہ ازیں، سموگ کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے اور گرین پنجاب اور ایکو واچ کے نام سے موبائل اپلیکیشنز بھی تیار کی گئی ہیں، مارچ سے ستمبر کے دوران صوبے بھر میں تین کروڑ ساٹھ لاکھ درخت لگائے گئے جن میں سے 48لاکھ صرف لاہور میں لگائے گئے۔ صوبائی حکومت کی یہ تمام اقدامات تعریف کے قابل ہیں اور ان کے ثمرات آئندہ چند ماہ میں عوام کو دکھائی دیں گے۔ سموگ کے آغاز میں ہی فوری طور پر فضائی آلودگی سے نمٹنے کیلئے زہریلی گیسوں کا اخراج روکنے کیلئے دفعہ 144نافذ کرتے ہوئے متاثرہ علاقوں میں گرین لاک ڈائون بھی لگا دیا ،سموگ کی ابتر صورتحال کے پیش نظر پنجاب حکومت نے لاہور ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور ملتان میں ہائر سکینڈری سکول 17نومبر تک بند کر دیئے گئے. سکولوں کے
تفریحی ٹرپ اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد ہے۔ اسی طرح سرکاری اور نجی دفاتر کا 50فیصد عملہ ورک فرام ہوم کرے گا جب کہ سرکاری میٹنگز بھی آن لائن ہورہی ہیں،سرکاری اور نجی دفاتر کا 50فیصد عملہ ورک فرام ہوم کر رہا ہیں۔ تمام سرکاری میٹنگز اب زوم پر منتقل کر دیا گیا۔ سموگ کے تدارک کیلئے تمام محکموں کو اہداف دیئے گئے ہیں، ادارہ تحفظ ماحولیات کے آفس میں سموگ وار روم قائم کیا گیا ہے جہاں فضائی آلودگی کو مانیٹر کیا جارہا ہے، صوبہ بھر میں سموگ سے نمٹنے کیلئے سپیشل سموگ سکواڈز کا قیام عمل میں لاتے ہوئے سموگ پھیلانے کا سبب بننے والی گاڑیوں، کارخانوں، فصلوں کی باقیات جلانے اور زنگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغیر چلنے والے بھٹوں کیخلاف وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا گیا۔ پنجاب پولیس نے بھی سموگ کی روک تھام اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے لاہور سمیت مختلف اضلاع میں انسداد سموگ کریک ڈائون میں مجموعی طور پر 1912ملزمان گرفتار، 1739مقدمات درج کئے گئے،19558افراد کو مجموعی طور پر3کروڑ ، 28لاکھ روپے سے زائد جرمانے کئے، 817افراد کو وارننگ جاری کی گئی، فصلوں کی باقیات جلانے کی 1427، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی 16409،صنعتی سرگرمی کی 313، اینٹوں کے بھٹے کی 607دیگر مقامات کی 195خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں۔ رواں برس شاہرات پر زیادہ دھواں چھوڑنے والی 7لاکھ ، 25ہزار 298گاڑیوں کے چالان کئے گئے ، 1لاکھ 56ہزار 460گاڑیوں کو بند ، 10ہزار 14گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ معطل کئے گئے۔ سموگ کی خراب صورتحال کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے پارکس، تفریح گاہیں، عجائب گھر 10دن کیلئے بند کر دیئے، یہ پابندی 8نومبر سے 17نومبر تک لاگو رہے گی، خلاف ورزی پر ماحولیاتی قانون کے تحت گرفتاری، جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے ، صوبے میں سموگ اور فضائی آلودگی میں اضافے کی موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو یہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے جس کے خلاف مناسب حکمت عملی اپنائی جائے، اس لئے حکومتی سفارشات پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائیں۔ گرد و غبار کی جگہ پر چھڑکائو کریں، فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کی بجائے ویسے دوسرے طریقوں سے تلف کر دیں اور باقی تمام ایسی انسانی سرگرمیاں جو آلودگی کا ذریعہ ہیں انہیں محدود کریں۔ امید واثق ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا تا کہ مستقبل میں صاف اور شفاف ماحول میں سانس لے سکیں۔

جواب دیں

Back to top button