بنی گالہ کے باشندے

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
بڑے نفیس، محترم کئی کتابوں کے مصنف جناب سجاد اظہر اپنی کتاب ’’راول راج‘‘ میں بنی گالہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’عمران خان نے بنی گالہ میں کیسے جگہ خریدی تھی؟ اس حوالے سے بنی گالہ کے پرانے رہائشی راجہ جمیل عباسی کا کہنا تھا سنہ 2003میں عمران خان اور جمائمہ میرے پاس آئے اور وہ یہاں گھر بنانا چاہتے تھے۔ جو جگہ ان کو پسند تھی وہ میرے رشتہ داروں کی تھی۔ میں نے ذاتی دلچسپی لیکر یہ سودا کرایا۔ 300کنال اور 5مرلہ زمین کا سودا 4کروڑ 35لاکھ میں طے ہوا۔ اسی وقت میں نے اپنی جیب سے 10لاکھ کا پیشگی چیک عمران خان کی طرف سے ادا کیا۔ کیونکہ قومی ہیرو کا وہاں گھر بنانا ہمارے لئے بڑے فخر کی بات تھی، بعد میں عمران خان نے لندن والا فلیٹ فروخت کرکے رقم ادا کی۔ بنی گالہ کا کل رقبہ 19ہزار کنال یعنی 2375ایکڑ سے زائد ہے۔ یہاں ہزاروں گھر بن چکے ہیں۔ اسلام آباد کی نسبت یہاں زمین کی قیمت کم ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہاں ہزاروں گھر ہیں لیکن کوئی رجسٹرڈ نہیں تھا۔ یہاں واحد گھر ڈاکٹر قدیر کا رجسٹرڈ تھا، باقی کوئی گھر ریگولرائز نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا گھر ضلع انتظامیہ نے رجسٹر کیا تھا اور بعد میں عمران خان کا گھر سی ڈی اے نے ریگولرائز کیا۔ عمران خان کا گھر زون 3میں آتا ہے۔ حکومت کی طرف سے زون 3میں تعمیرات کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ یہ زون ایسا علاقہ ہے جو راول ڈیم کے دو کلومیٹر کیچ منٹ ایریا کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس کی پیمائش ڈیم کے پانی سے کی جاتی ہے۔ لیکن سی ڈی اے نے عمران خان کے گھر کو زون 3سے نکال کر زون 4میں ڈال دیا تاکہ اس کی رجسٹریشن ہوسکے۔ زون 4کی جگہ فارم ہائوس کیلئے رکھی گئی تھی جہاں 20فیصد رقبہ پر تعمیرات کی اجازت تھی۔ مرحوم جنرل پرویز مشرف نے بھی وہاں اپنا فارم ہائوس بنایا ہوا ہے۔ راول ڈیم کے کناروں پر آباد ہونیوالوں میں ججز، جنرلز اور بیوروکریٹ بھی شامل ہیں۔ ملک کی کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس کے وہاں گھر نہ ہوں۔ بلکہ میڈیا مالکان اور تگڑے تجزیہ نگار حضرات کے بھی فارم ہائوسز موجود ہیں۔ یہ سب بااثر لوگ ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بہارہ کہو سے بری امام تک تمام سیوریج نالے راول ڈیم میں ہی گرتے ہیں۔ مری تک کا گند بھی یہیں بہہ کر آتا ہے۔ راول ڈیم کی عمر 40سال تھی جو پوری ہوچکی ہے۔ اب پنڈی شہر کیلئے کوئی نیا ڈیم تعمیر کرنا چاہئے۔‘‘ یہاں یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ جہاں عمران خان کے گھر کی رجسٹریشن کو لیکر ایک شور مچایا گیا تھا لیکن عام شہریوں کو اس بات کا کہاں علم ہے کہ بنی گالہ میں پاکستان کے طاقتور افراد کے بھی مکانات، فارم ہائوسز ہیں۔ اسلام آباد ہائی وے سے بنی گالہ تک کی سڑک کیلئے1ارب روپے کا بجٹ میاں نوازشریف حکومت نے 2014میں جاری کیا۔ اس وقت جہان پاکستان نیوز پیپر نے رپورٹ دی تھی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ اور عمران خان کی آپس میں ملاقات ہوئی ہے اور وزیراعظم کی بھی ملاقات کا انکشاف کیا جو بعد میں سچ ثابت ہوئی۔ عمران خان کے مطابق بنی گالہ کی سڑک اپنی جیب سے بنائی گئی تھی جو بعد میں توشہ خانہ کے پلڑے میں شمار ہوتی رہی۔ اس گھڑی کا کیس عدالت میں ہے۔ وہ سڑک کسی ایک فرد کیلئے کارآمد نہیں بلکہ ملک کے نامور شہریوں اور عام افراد بھی اس سے فیض یاب ہیں۔ کیوں کہ وہاں ان سب کے مکانات، فارم ہائوس ہیں، ہماری سیاسی پستی دیکھیں کہ روڈ کی سہولت جو انسانی حق ہے، اس پر سیاست کی جاتی رہی۔ سیاسی لیڈر کیسے چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ عوام ان پر یقین کر لیتے ہیں کیوں کہ جھوٹ اور دھوکہ سیاست کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ تمام نعرے، وعدے جلسہ گاہ تک عوامی تسکین کا باعث ہیں۔ ہمارے ہاں طاقتوروں کا تحفظ یقینی ہے لیکن کمزور لوگوں کو زون 4کی سہولیات میسر نہیں ہوں گی۔ لوگ ان سیاسی بیانیوں کو کب سمجھیں گے۔ یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ جھوٹ کے پیچھے چل پڑتے ہیں، ہمارے ہاں قرض پر روڈ تعمیر کرکے سیاست کی جاتی ہے۔ قرض سے تحفظ لیا جاتا ہے جو قرض بعد میں عوام پر بوجھ ہے۔ عوام کی لاعلمی، کمزوری کا فائدہ ہر دور میں جمہوری اور آمریت والوں نے خوب اٹھایا ہے۔ 25کروڑ ان 76سالوں میں بے بس، لاچار کھڑے ہیں جن کے پاس کوئی بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل پر سیاست کی جاتی ہے۔ کئی مہینے تک تو بنی گالہ پر سیاست چلتی رہی اور ملک میں افراتفری کو ہوا ملتی رہی۔ حقیقت میں تحریک عدم اعتماد کو لے کر پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی طرف سے سیاسی ماحول کو گرم کیا گیا۔ ایسے حالات کا کبھی بھی ملک متحمل نہیں تھا، جس طرح کی صورت حال پیدا کی گئی تھی۔ لیکن مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھا، ملکی مفادات کی کسی جماعت کو پروا نہیں تھی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں ملک کو کمزور کر دیا۔ اقتدار اور اختیار کے چکر نے عوام کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ معمولی معمولی باتوں پر سیاسی ماحول کو گرم کیا گیا، سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبروں نے عوامی رائے عامہ کو تبدیل کیا۔ نوجوان پہلے ہی روزگار سے پریشان ہے، مہنگائی نے گھروں کو اجاڑ دیا ہے، مصنوعی، وقتی فیصلہ سازی کی جاتی رہی، سٹیٹ بینک نے معاشی عوامی سروے کرایا ہے۔ دیکھتے ہیں کتنے فیصد حکومتی فیصلے سے خوشحالی آئی ہے۔