غزہ شہر جو موت کا انتظار کر رہا ہے

پیامبر
قادر خان یوسف زئی
غزہ، یہ شہر جسے دنیا کئی دہائیوں سے دیکھ رہی ہے، آج پھر تاریخ کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ غزہ، جسے کبھی لوگ اپنے خوابوں کا شہر کہتے تھے، آج ایک خون میں بھیگی زمین بن چکی ہے۔ یہاں ہر طرف موت کا سایہ ہے، ہر گلی، ہر گھر، ہر سڑک کسی نہ کسی انسان کی آخری پناہ گاہ بن چکی ہے۔ اسرائیلی حملے ہر لمحہ بڑھ رہے ہیں، اور ان حملوں کی گونج میں نہتے فلسطینیوں کی چیخیں دب کر رہ گئی ہیں۔ انسانیت کی چیخیں، بلکتے بچے، اجڑے ہوئے خاندان، اور لاشوں کی قطاریں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ لیکن آج، غزہ کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ دنیا کے سامنے شاید ایک بے آواز فریاد بن چکا ہے۔ جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے اس علاقے کو جنگی میدان میں تبدیل کر دیا ہے۔ وزارتِ صحت کے حکام چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ زخمیوں کے علاج کے لیے ضروری طبی سامان ختم ہو چکا ہے۔ وہ جو مرہم کی تلاش میں تھے، اب خود زخمی ہو چکے ہیں۔ فلسطینی شہر میں ہسپتالوں کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، مگر ان میں دوا نہیں، صرف بے بسی کی آواز ہے۔ ان ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹر اور نرسیں ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ان کے پاس وسائل کم، مگر زخم زیادہ ہیں۔ روزانہ سینکڑوں زخمی آتے ہیں، مگر ان کا علاج ممکن نہیں کیونکہ کوئی دوائی، کوئی بیڈ، کوئی آلہ باقی نہیں بچا۔
فیلپ لازارینی، یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ، نے اپنے بیان میں غزہ کی موجودہ صورتِ حال کو انتہائی سنگین قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ شمالی غزہ میں لوگ صرف مرنے کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ ان کا یہ جملہ دل دہلا دینے والا ہے، مگر حقیقت پر مبنی ہے۔ آج غزہ کے لوگ نہ صرف جسمانی طور پر زخمی ہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ وہ اجڑے ہوئے، تنہا، اور ناامید ہیں۔ لازارینی کے مطابق، شمالی غزہ میں انسانی صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ لاشیں سڑکوں کے کنارے بکھری ہوئی ہیں یا ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ ہر طرف موت کا راج ہے، اور زندگی بے یارو مددگار نظر آتی ہے۔ جنگ کے نتیجے میں یہ انسانیت ملبے کے نیچے دب چکی ہے، اور ہر طرف صرف چیخوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ لازارینی کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ کو فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے، چاہے وہ چند گھنٹوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ جنگ بندی ضروری ہے تاکہ ان خاندانوں کو محفوظ انسانی راستہ فراہم کیا جا سکے جو علاقہ چھوڑ کر کسی محفوظ مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
غزہ کے باسی شاید اس وقت ایک خواب دیکھ رہے ہیں ، ایک ایسا خواب جس میں وہ اپنے گھروں میں محفوظ ہوں، ان کے بچے سکون سے سو سکیں، اور ان کی زندگیاں خوف و ہراس سے آزاد ہوں۔ مگر یہ خواب، اس وقت محض ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔ غزہ، دنیا کا وہ حصہ جہاں انسانیت بار بار کچلی جا رہی ہے۔ جہاں امیدیں دم توڑ رہی ہیں، اور زندگیاں موت کے سائے میں پل رہی ہیں۔ آج پھر یہ شہر ایک اور قیامت سے گزر رہا ہے۔ اسرائیلی حملوں نے اس محصور ساحلی پٹی کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، اور اس ملبے کے نیچے زندگی کی آخری ہچکیاں سنائی دیتی ہیں۔ حماس کے زیر انتظام محکمہ صحت کے حکام کی دل دہلا دینے والی رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے بڑی تعداد میں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور درجنوں افراد کی لاشیں سڑکوں کے کنارے یا ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ یہ نہ صرف موت کی داستان ہے، بلکہ انسانی بے بسی اور اذیت کی بھی داستان ہے۔ امدادی ٹیمیں ان لاشوں تک نہیں پہنچ پا رہیں، کیونکہ اسرائیلی حملوں کا تسلسل انہیں روک رہا ہے۔
اس بربادی کے بیچ، ہر وہ انسان جو کبھی اس زمین پر قدم رکھتا تھا، آج یا تو اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے یا اپنی آخری سانس لے چکا ہے۔ سڑکیں جو کبھی بچوں کی قہقہوں سے گونجتی تھیں، آج لاوارث لاشوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل میں ایک سوال اٹھتا ہے، انسانیت اس حد تک کیسے گر سکتی ہے کہ مرنے والوں کو دفنانے تک کی اجازت نہ ہو؟۔ غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر منیر البرش کی گفتگو نے دلوں کو دہلا دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ شمالی غزہ میں بہت سے زخمی ہماری آنکھوں کے سامنے مر چکے ہیں، اور ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکے‘‘۔ ان کے الفاظ میں چھپی ہوئی بے بسی اور دکھ شاید ہی کوئی لفظ بیان کر سکے۔ ہسپتالوں میں نہ صرف زخمیوں کی مدد کے لیے وسائل ختم ہو چکے ہیں، اس المیے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ منیر البرش نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ ’’ وہ اپنے گھروں میں موجود کوئی بھی کپڑا عطیہ کریں تاکہ ان میتوں کو ڈھانپنے کے لیے کچھ مل سکے‘‘۔ یہ اپیل نہ صرف اس جنگ کی ہولناکی کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ اس بے بسی کو بھی جو اس وقت غزہ کے لوگوں پر چھا چکی ہے۔
غزہ کے لوگوں کی یہ فریاد صرف ایک شہر کی نہیں ہے، یہ پوری انسانیت کی فریاد ہے۔ آج جب دنیا کے باقی حصوں میں زندگی اپنی رفتار سے چل رہی ہے، غزہ کے لوگ موت کے انتظار میں ہیں۔ وہ زخمی ہیں، بھوکے ہیں، اور ان کے پاس نہ کوئی علاج ہے نہ کوئی پناہ۔ اور جو اس دنیا میں موت سے بچ گئے، وہ بھی ایک ایسی اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں جس میں ہر لمحہ موت کی یاد دلاتا ہے۔یہ وقت ہے کہ دنیا اس چیخ کو سنے جو غزہ کے ہر گلی، ہر سڑک اور ہر ملبے سے اٹھ رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اپنے ضمیر کو جھنجھوڑے اور اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ غزہ کے لوگوں کے لیے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ وہ ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ہر دن موت کا پیغام لاتا ہے۔
بچے، جو اس دنیا کے سب سے معصوم باشندے ہوتے ہیں، ان کی آنکھوں میں آج خوف ہے۔ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا وہ کبھی خوشیاں محسوس کر پائیں گے؟ یا وہ بھی اپنے والدین کی طرح ایک اجڑی ہوئی زندگی گزاریں گے؟۔ غزہ کی زمین پر آج موت کا راج ہے۔ آج غزہ کے باسیوں کی آخری فریاد شاید یہی ہے کہ کوئی تو ان کی مدد کرے، کوئی تو ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔ غزہ، آج کی دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ، ہمیں بتا رہا ہے کہ انسانیت مر نہیں سکتی، لیکن اس کی روح کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں مل کر کچھ کرنا ہوگا۔