ColumnTajamul Hussain Hashmi

پاکستان کو مقابلہ نہیں مکالمہ کی ضرورت ہے!

تجمّل حسین ہاشمی
ایوانوں میں بیٹھے سیاسی افراد سارا وقت ایک دوسرے کو کوستے ہیں، عام افراد بھی ایک دوسرے کے رویوں پر غم زدہ ہیں لیکن کسی نے کبھی خود کے رویوں پر نظرثانی نہیں کی۔ کوئی بندہ خوش گفتار نہیں اور سچ بولنے کیلئے تیار نہیں ہے، پورے ملک میں جنگ کا سا سماں ہے، سیاست اور نظریات میں بٹ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ یہ فرق گزشتہ ادوار میں بھی کم نہیں تھا بلکہ اس کو تقویت دی گئی ہے، جس کی وجہ طاقتور قوتوں اور ہمارے اداروں کی ناانصافیاں ہیں۔ ذاتی مفادات ان کی ترجیحات ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرض سے ترقی لانا چاہتے ہیں اور پھر امن پسند ہونے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اس منفی سوچ میں اضافہ ہے۔ دوسرے سے اچھے کی خواہش لیکن خود اچھا سوچنا نہیں چاہتے۔ ویگو ڈالا اور چار گارڈ کی نمائش خواہ مخواہ کے بھرم ۔ ہر دور میں طاقتور، فیصلہ سازوں کو ہر چوتھا فرد فسادی نظر آتا ہے، قومی خزانہ کے چور امان داری کے بھاشن کئی سالوں سے ہمیں دے رہے ہیں۔ اپنی خدمات ایسے گنواتے ہیں جیسے اپنی جیب سے کی ہیں۔ پیسہ قوم کا ہے لیکن قوم کی رائے دہی کا احترام نہیں۔ ہمارے ہاں قسمت کے غنی بہت ہیں لیکن دنیا میں قسمت کم لیکن عمل زیادہ طاقت ور ہے۔ آئینی ترمیم کے خوش نصیب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب ٹھہرے، ہمارے ہاں ماضی کے کئی خوش نصیب حکمران رہ کر واپس ان کے پاس چلے گئے ہیں جن کے وہ بندے تھے۔ گزشتہ روز سابقہ ہونیوالے چیف جسٹس بھی شاید پاکستان نہ رہیں لیکن تحریک انصاف ضرور یاد رکھے گی جن کی پارٹی کا نشان چھین کر وہ تاریخ ہوئے، ہمارے ہاں کا وتیرہ ہے کہ جانے والے کیلئے کوئی اچھے کلمات ادا نہیں کرتا، یا یوں کہہ لو کہ کوئی حقیقی خدمات گار قوم کے نصیب میں نہیں آیا، جس کو قوم یاد رکھے۔ جنہوں نے قوم کو فخر دیا وہ روڈوں کے فٹ پاتھ پر نظر آئے۔ یا ان ہیروز کی ایمبولنس خراب رہیں۔ وہ اس نظام سے ناراض دنیا سے چلے گئے، لیکن وطن کیلئے زندہ ہیں۔ کئی سال سے قانون پاس کئے جاتے رہے لیکن یہ 26ویں ترمیم قوم کا مقدر تبدیل کرے گی کیوں کہ اس ترمیم میں سودی نظام کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ باقی اس وقت مولانا فضل الرحمان صاحب کی سیاسی بصیرت کے چرچے ہیں، سیاسی میدانوں اور مذہبی جماعتوں میں جناب مولانا صاحب کے عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے 26ویں ترمیم میں حقیقتاً ایک منفرد کردار ادا کیا، بانی تحریک انصاف عمران خان بھی مولانا فضل الرحمان کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر تھوڑا پچھلے حالات پر نظر ڈالیں تو پی ڈی ایم کے بانی بھی تو مولانا فضل الرحمان تھے لیکن دو بڑی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کی محنت کو ہائی جیک کیا اور مولانا سے دبے الفاظ میں کئے وعدوں کے مطابق حکومت میں حصہ نہیں دیا گیا۔ مولانا 2024کے انتخابات کے نتائج سے بھی ناراض نظر آئے، دونوں بڑی جماعتوں کی بے رخی، ان کی چالاکیوں سے یقیناً مولانا خوب واقف تھے لیکن شاید وقت کے انتظار میں تھے، اس دفعہ ترمیم میں میاں نواز شریف کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ مولانا کی بیٹھک کا مہمان بنیں، 2018میں مسلم لیگ ن کی قیادت جب زیر عتاب تھی تو مولانا صاحب نے میاں صاحب کو متحرک ہونے کیلئے کہا لیکن حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے میاں نوازشریف نے انتظار کرنا مناسب سمجھا لیکن تحریک عدم اعتماد سے مولانا نے تحریک انصاف کی حکومت کا بسترا گول کرایا۔ مولانا فضل الرحمان اس ترمیم میں بھی اہم رہے، حکومت اور اس کے اتحادی اب 27ویں ترمیم کی پلاننگ میں ہیں، عام فرد یہ سوچ رہا ہے کہ کیا ترمیم سے ہمارے مسائل حل ہوں گے جو مزید ترامیم کی جارہی ہیں۔ ایک بات بڑی واضح ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی تو اس نے کئی پروجیکٹ دستخط کئے اور ترمیم جیسے فیصلے سامنے آئے لیکن ملکی معیشت کی حالت میں کوئی بڑی چینج نہیں لا سکی۔ آج بھی معاشی صورتحال گھمبیر ہے، فرد واحد مشکل میں ہے لیکن سٹاک ایکسچینج کا انڈکس ہائی ہے۔ ایسی صورت حال میں جمہوری حکومت کو ایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی سے زیادہ مکالمہ کرنا چاہئے، ملک کو سیاسی تحمل کی کمی کا سامنا ہے جس کیلئے حکومت کو کردار ادا کرنا ہے۔ بانی پی ٹی آئی پر ملک میں گرمائش بڑھانے کا الزام ہے لیکن موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر ہے جس پر بانی پی ٹی آئی ہیں، چند دن پہلے جناب اختر مینگل کیخلاف دہشت گردی کی ایف آر درج کی گئی، کیا اس کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ بلوچستان پہلے ہی تنہائی کا شکار ہے، وہاں کے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، یقیناً وہ اس پر احتجاج کریں گے، پھر حالات ناسازگار ہوں گے۔ جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان کی ترقی کیلئے کوشش کی گئی، اربوں روپے کے فنڈز دیئے گئے لیکن تمام مقامی سرداروں، سیاسی رہنمائوں کی نذر ہوگئے، وہاں کے عوام معاشی طور پر کمزور ہی رہے۔ وہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، ریاستی ادارے ان حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ریاست کے چاروں صوبوں میں نفرت، تقسیم کی آبیاری نہ ہوسکے، ملک دشمن قوتیں عام سادہ افراد کو اپنے غلط مقاصد کیلئے استعمال نہ کر سکیں۔

جواب دیں

Back to top button