وہم اب لا علا ج نہیں

رفیع صحرائی
وہم ایک دماغی عارضہ ہے جس میں کسی شخص کے دماغ میں کچھ ایسے خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں جن سے وہ چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ جس شخص کو وہم لاحق ہو وہ ان خیالات سے جتنا پیچھا چھڑانا چاہے وہ خیالات اتنی ہی شدت سے اس کے ذہن میں آتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس فوبیا کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ ان خیالات سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے مگر لاشعور میں بسے خیالات سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہم کو لاعلاج مرض گردانا جاتا ہے۔ وہم کے بارے میں یہ ضرب المثل زبان زدِ عام ہو گئی کہ ’’ وہم کا کوئی علاج نہیں‘‘، یار لوگوں نے اس کی شدت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے مشہور کر دیا کہ ’’ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا‘‘۔
آج کے دور میں وہم کا علاج ممکن ہے مگر لاعلمی کی وجہ سے لوگ معالجین سے رجوع نہیں کرتے۔ ماہرینِ نفسیات لاشعور میں گھر کیے ہوئے واہموں کو نکالنے میں موثر اور بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
امریکہ کے ایک پچپن سالہ آدمی کو ایک کالا جادو کرنے والے نے بد دعا دی کہ ’’ تم جلد مر جائو گے اور تمہیں کوئی بچا نہیں سکے گا‘‘۔ دن بدن آدمی کی حالت بگڑتی گئی یہاں تک کہ اس کا تیس کلو وزن کم ہو گیا۔ اسے ہسپتال لے کر گئے، تمام رپورٹس کلئیر تھیں، جس ڈاکٹر کو اس کا کیس دیا گیا اس نے اس مریض کی بیوی سے علیحدگی میں پوچھا کہ کیا کچھ ایسا ہے جو اس سب کی وجہ ہے؟ ۔ اس نے بتایا کہ ایک کالے علم والے نے اسے موت کی بد دعا دی تھی۔ ڈاکٹر نے اگلے دن نرس سے ایک انجیکشن لانے کو کہا اور مریض کو بتایا کہ ’’ میں اس کالا جادو کرنے والے سے ملا ہوں اسے پولیس کی دھمکی دی تو اس نے بتایا کہ اس نے تم پر چھپکلی کے انڈے پھینکے تھے، ان میں سے ایک چھپکلی تمہارے جسم میں ہے اور اندر سے تمہیں ختم کر رہی ہے۔ اس انجیکشن سی تمہیں الٹی آئے گی اور وہ چھپکلی باہر آجائے گی‘‘۔
انجکشن لگنے کے بعد آدمی کو الٹی آئی اور ڈاکٹر نے آنکھ بچا کر اس میں چھپکلی ڈال دی۔ اس کے بعد حیرت انگیز طور پر وہ آدمی ٹھیک ہوتا چلا گیا اور لمبی زندگی جیا۔
بات یہ ہے کہ ہم بیماریوں سے نہیں مرتے، ہم اپنے دماغ کے ہاتھوں مرتے ہیں یہ ہمیں یقین دلا دیتا ہے کہ اب ہم نہیں بچیں گے۔ اسی لیے ایک آدمی جب لیور کینسر سے مرا تو اس کے پوسٹمارٹم کے بعد پتا چلا کہ وہ ٹیومر تو بہت چھوٹا تھا اور پھیل بھی نہیں رہا تھا۔ وہ آدمی اس لیے مرا کیونکہ اس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اس کینسر سے جلد مر جائے گا۔آپ اپنے اردگرد الرجی کے مریضوں کو دیکھ لیں۔ یہ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دھیان اپنی الرجی سے کبھی ہٹتا ہی نہیں۔
وہم کی ایک اور قسم بھی ہے۔ وہ یہ کہ آپ تسلسل کے ساتھ کسی کے کانوں میں اس کی شخصیت، صحت یا بیماری کے بارے میں کچھ انڈیلتے رہیں۔ پہلے اسے شک ہو گا، پھر یہ شک پختہ ہو گا اور آخر میں اسے یقین ہو جائے گا۔ایک مکتب کا استاد بڑا محنتی تھا۔ مکتب کے بچے استاد کی طرف سے مسلسل محنت اور پڑھائی کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ انہوں نے کچھ دن رخصت حاصل کرنے کی تدبیر کی۔ ایک دن سب طالب علموں نے بیٹھ کر پروگرام بنایا کہ جب استاد صاحب کلاس میں آئیں تو سلام لیتے وقت باری باری یہ کہیں گے کہ استاد جی اللہ خیر کرے آپ کا چہرہ زرد محسوس ہو رہا ہے۔ سب بچوں نے اس پر اتفاق کیا اور قسمیں کھائیں کہ راز فاش نہیں کریں گے۔ دوسرے دن مکتب میں جب استاد صاحب تشریف لائے تو سلام لیتے وقت ایک بچے نے بڑی ذمہ داری سے ہمدردانہ طور پر عرض کیا ’’ استاد جی اللہ خیر کرے آج آپ کا چہرہ زرد سا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟‘‘۔ استاد نے کہا، ’’ میں تو اچھا بھلا ہوں تو یوں ہی بک بک کر رہا ہے۔ جا اپنی جگہ پر بیٹھ اور اپنا کام کر‘‘ ۔ اسی طرح دوسرے طالب علم نے سلام عرض کرتے وقت کہا’’ استاد جی نصیب دشمناں آپ کچھ بیمار سے محسوس ہوتے ہیں‘‘۔ استاد صاحب کے دل میں کچھ وہم سا پیدا ہو گیا۔ دوسرے ہی لمحے تیسرا طالب علم آیا اس نے بھی جھک کر سلام عرض کیا اور کہا کہ ’’ آپ کچھ بیمار لگ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے اور ہمارے استاد جی کو بہ خیریت رکھے‘‘۔ الغرض ساری کلاس نے استاد کو بیمار بتایا استاد جی کا وہم بڑھتے بڑھتے یقین کے درجے تک پہنچ گیا۔ اُنہیں واقعی سر میں درد محسوس ہونے لگا۔ استاد صاحب بیماری کے وہم سے سست ہو گئے۔ چادر اوپر لے کر آہستہ آہستہ گھر چلے گئے اور بچوں کو کہا کہ مجھے گھر آکر سبق سنا دینا۔ استاد صاحب جب گھر پہنچے تو بیوی پر خفا ہونے لگے کہ تو میرا خیال نہیں رکھتی، دیکھ میرا چہرہ زرد ہو رہا ہے۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
جب کہ بچوں نے میری بیماری کی نشاندہی کی ہے۔ بیوی کہنے لگی ’’ آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ بیمار نہیں ہیں‘‘۔ استاد صاحب نے اسے جھڑک دیا اور کہا جا میرا بستر بچھا دے، استاد صاحب بستر پر لیٹے۔ ان کے شاگرد بھی آن پہنچے چار پائی کے گرد اونچا اونچا سبق پڑھنے لگے لڑکوں نے گھر سر پر اٹھا لیا۔ استاد صاحب نے کہا ’’ کم بختو تمہیں پتا نہیں میں بیمار ہوں اور تم شور مچا رہے ہو۔ میرا سر پھٹا جارہا ہے۔ جائو اب چھٹی کرو جیتا رہا تو پڑھائوں گا‘‘۔ لڑکے دل ہی دل میں ہنستے ہوئے گھروں کو چلے گئے۔
وہم ایک دماغی عارضہ ہے جس میں کسی شخص کے دماغ میں کچھ ایسے خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں جن سے وہ چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ جس شخص کو وہم لاحق ہو وہ ان خیالات سے جتنا پیچھا چھڑانا چاہے وہ خیالات اتنے ہی اس کے دماغ میں آتے رہتے ہیں۔ کیونکہ میڈیکل سائنس میں وہم کا کوئی علاج نہیں۔ وہم یا وسوسوں سے بچنے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جیسے ہی وہ وہم دماغ میں آئے اسے جھٹک کر کسی اور چیز کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا جائے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں لیکن مشق کی بدولت وہم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہم کے شکار شخص کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اسے وہم کا عارضہ ہے۔ ایسے شخص کو کسی اچھے ماہرِ نفسیات کے پاس لے جانا چاہیے۔