CM RizwanColumn

جگائے گا کون؟

انقلابیوں کی رہائیاں شروع
تحریر: سی ایم رضوان
فلسفیانہ دلائل سے ہٹ کر سادہ الفاظ میں اگر انقلاب کی تشریح کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انقلاب کسی بھی معاشرے میں بڑی تبدیلی کا نام ہے۔ ایسی تبدیلی جو اس لئے لائی جائے کہ اس معاشرے کے لوگوں کی زندگی پہلے کی نسبت آسان، پر آسائش اور ترقی یافتہ ہو سکے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر انقلاب کا مقصد ظلم کو ختم کرنا ہی ہوتا ہے۔ یعنی انقلاب معاشرے کے اندر ایک ایسی تبدیلی کا نام ہے جو ظلم پر مبنی نظام کو تبدیل کر کے معاشرے کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جو جس مرتبے اور مقام کا اہل ہو اسے وہی درجہ اور مرتبہ ملے۔ کسی بھی انقلاب میں سیاسی نظام کی تبدیلی سب سے اہم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری بھی سب سے اہم ہے کیونکہ معیشت ہر کسی کا مشترکہ مفاد ہوتا ہے۔ اسی بناء پر معاشرے کے ہر فرد کو معیشت سے خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی انقلاب اس وقت ہی آتا ہے جب فرسودہ نظام فیل ہو جائے یا اس فرسودہ نظام میں چلنے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ لیکن یہ نظام کسی بھی تبدیلی کی گنجائش کے مقابلے میں اتنا پختہ ہو چکا ہو کہ اس کے خلاف بولنا بھی جرم اور بغاوت ٹھہرائی جاتی ہو۔ اس نظام کا حصہ بن کر تبدیلی لانا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ظلم کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے کیونکہ یہ نظام لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گیا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ فرسودہ نظام کے پروردہ عناصر جھوٹے اور جعلی انقلاب کے نام پر لوگوں کو دھوکا دہی سے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ جیسا کہ موجودہ دور میں پی ٹی آئی نامی ایک شرپسند جماعت ایک ایسا انقلاب لانا چاہتی ہے جس کی باگ ڈور طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ہو۔ تبھی تو اس کے اڈیالہ جیل میں مقیم لیڈر کو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا انتظار ہے۔ اس جھوٹے اور جعلی انقلاب کا جادو قابل ذکر ملکی آبادی کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ انقلاب قدم قدم پر سٹیٹس کو میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے مگر فرسودہ نظام کے عادی لوگوں نے اسی شر پسندی کو ہی اصلی انقلابی تحریک سمجھ کر اسی کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنایا ہوا ہی۔ یہ ٹھیک ہے کہ انقلاب جب بھی آتا ہے یا آیا ہے اس وقت ہی آیا ہے جب معاشرے کے چند مدبر لوگ یہ سمجھ لیں کہ موجودہ نظام مزید چلنے کے قابل نہیں اور انہیں جدوجہد کر کے ایک نیا نظام لانا ہو گا اور یہ بھی کہ جب تک موجودہ نظام میں تبدیلی اور بہتری کی گنجائش ممکن رہتی ہے اور کوئی امید نظر آ رہی ہوتی ہے اس وقت تک انقلاب نہیں آتا۔ انقلاب دراصل مکمل تبدیلی اور نئے نظام کا نام ہے یہ موجودہ نظام کے ساتھ ڈیل یا سمجھوتہ نہیں کرتا بلکہ اس سے بغاوت کرتا ہے۔ پھر بات اگر پی ٹی آئی کے انقلاب کی کریں تو آج یہ انقلاب ڈیل کے مرحلی سے گزر رہا ہے یعنی انقلاب کی پیامبر خاتون اول ڈیل کر کے جیل سے باہر آ گئی ہیں۔ ان کے مدمقابل متبادل قیادت کی امیدوار خواتین بھی رہائی پا چکی ہیں اور دوسرے درجے کی قیادت کے حامل اور پہلے درجے کی قیادت کے حصول کے امیدوار یعنی شاہ محمود قریشی بھی عنقریب ڈیل کے تحت آزاد ہونے جا رہے ہیں ساتھ ہی متبادل اُمیدوار چودھری پرویز الٰہی کو بھی بیرون ملک روانگی کی اجازت مل گئی ہے۔ وہ بھی ڈیل جیسی کھیل کے پرانے کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ ان کی شہرت بھی یہی ہے کہ وہ بھی ہر بار سٹیٹس کو کا علم تھام کر میدان میں نکلتے ہیں اور اپنے تئیں ہمیشہ فاتح اور غازی رہتے ہیں۔
اب تک کی عالمی تاریخ میں اگر انقلابات کا ذکر کرنا ضروری ہو تو سب سے پہلے انقلاب نبویؐ کا ہی ذکر آتا ہے کیونکہ اس سے بڑا انقلاب دنیا میں نہ آج تک آیا ہے اور نہ ہی آنا ممکن ہے، مبالغہ آرائی سے ہٹ کر یہ تاریخی حقائق ہیں کہ جنہیں کوئی بھی تاریخ سے واقف شخص مسترد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ وہ واحد انقلاب ہے جس میں سیاست، معیشت، ریاست کا مذہب، قانون، نظام تعلیم اور بہت ساری تبدیلیاں ایک ساتھ آئیں۔ اس کے علاوہ تاریخ میں آنے والے دیگر انقلاب چین، فرانسیسی انقلاب، روسی انقلاب اور انقلاب ایران کو کون بھول سکتا ہے۔ ان سب نے اپنے معاشروں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور یہ تمام کے تمام انقلاب بڑی بڑی تبدیلیاں لے کر آئے ہیں جن میں مثبت اور منفی دونوں پہلو شامل ہیں۔ ان انقلابات کا ذکر کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ انقلاب کا طریقہ کار سمجھ آ سکے۔ ان انقلابات کی تاریخ جاننے کے بعد ہی آگے سمجھنا آسان ہو گا کہ انقلاب کیسے آتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اور اہم کردار ہر انقلاب میں سیاسی مفکر کا ہوتا ہے جو اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اپنے خیالات منتقل کرتا ہے اور عوام کو موجودہ نظام سے علیحدہ کرنی اور نئے نظام کے قیام کے لئے جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے دو اقدام تو یہی ہیں کہ انقلاب کے لئے سب سے پہلے موجودہ اور فرسودہ نظام سے کٹنا اور نئے نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ایک ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جس کے ذریعے انقلاب کی کوشش کی جاتی ہے پھر اس ٹیم کو ٹریننگ یا تربیت کے مراحل سے گزارا جاتا ہے تا کہ آئندہ کے مشکل مراحل سے عہدہ برا ہونے کے لئے تیار کیا جا سکے۔ پھر یہی ٹیم اپنے نظریات کو مزید پختہ کرنے کے بعد ان کی ترسیل و تشہیر کا کام کرتی ہے اور مزید لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔ اس سارے کام کے اندر ایک چیز مستقل ہوتی ہے اور وہ ہے نظام کا جہاں تک ممکن ہو سکے بائیکاٹ۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ موجودہ نظام کا بھی حصہ ہوں اور اس کے لئے خدمات بھی سر انجام دے رہے ہوں اور نیا نظام بھی لانا چاہیں یعنی موجودہ نظام سے جہاں تک ممکن ہو سکے ٹوٹنا اور کٹنا انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن پھر وہی جھوٹا انقلاب زیر نظر آ جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سارے کل پرزے سابقہ اور جاری نظام کے ساتھ وابستہ ہیں اور جاری نظام کے ثمرات بھی سمیٹ رہے ہیں اور نئے نظام کے لئے انقلاب کے بھی داعی بنے ہوئے ہیں حالانکہ یہ ایک صبر آزما کام بھی ہے کیونکہ یہ اصول پسندی کے ساتھ ساتھ بہت وقت بھی لیتا ہے۔ بالفرض اگر تمام لوازمات انقلاب پورے بھی ہوں یعنی سیاسی مفکر بھی ہوں، نظریات بھی واضح ہوں اور ان نظریات پر ایک جماعت یا ٹیم کی تشکیل بھی ہو چکی ہو اور آپ کے نظریات معاشرے کے لوگوں تک بھی پہنچ چکے ہوں اور آپ موجودہ نظام کا حصہ بھی نہ ہوں تو آخری مرحلہ ہی باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یقین ہو کہ آپ کے ساتھ ایک بڑی طاقت جڑ چکی ہے۔ تو آپ کو بغاوت کرنا ہوتی ہے، جنگ کرنا ہوتی ہے، جہاد کرنا ہوتا ہے اب آپ شاید سوچیں کہ کیا جنگ ضروری ہے؟ تو اس کا جواب ہمیں تاریخ سے تو یہی ملتا ہے کہ جی ہاں ہر انقلاب کا آخری مرحلہ جنگ ہی ہوتی ہے کیونکہ موجودہ نظام کے لوگ کبھی بھی مذاکرات کے ذریعے آپ کو ملک یا نظام نہیں دیتے بلکہ ہمیشہ مزاحمت ہی کرنا ہوتی ہے۔ اس کی مثال انقلاب نبویؐ سے لے کر روس اور ایران کے انقلابات تک موجود ہے کہ ہر انقلاب خون کا پیاسا ہوتا ہے لیکن اگر بقول شاعر ناداں گر گیا سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سمجھوتہ اور ڈیل کر لینے والے حقیقی انقلابی نہیں تھے بلکہ انقلاب کے نام پر دھوکہ دینے کے لئے آئے تھے۔ جس طرح کہ اب پی ٹی آئی کے لوگ ڈیل کر کے باہر آ رہے ہیں اور اپنی اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق فائدے لے رہے ہیں۔ ان انقلابیوں کی رہائیاں ان کے خلوص کے چہرے کو بری طرح سے برہنہ کر رہی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button